Dilshad Nasim

نام:دلشاد نسیم 
تاریخِ پیدایش:23 نومبر
جائے پیدائش:کراچی
موجودہ شہر کانام:لاہور 
شعری سفر: اسکول کے زمانے سے لکھ رہی ہیں، باقاعدہ تخلیقات چھپنے کا آغاز 1988 سے ہوا
نظموں کی کتاب : محبت ایک استعارہ ہے
غزلوں کی کتاب:سکھی تیرے نام 
ناول : متاع جاں
افسانوں کی کتاب :اسیرِذات



گزررہی ہے جومجھ پرتُو نےسہی نہیں ہے
جو بات دل میں تھی مرے کبھی کہی نہیں ہے

ندی جو درد کی ہے موجزن مرے دل میں
خدا کا شکر کہ آنکھوں سے وہ بہی نہیں ہے

وہ چاند جھانکتا ہے اب بھی میری کھڑکی سے
اگرچہ شکل مری پہلے سی رہی نہیں ہے

یہ اور بات کہ میں خواب دیکھتی ہوں بہت
کہ آرزو کسی تعبیر کی رہی نہیں ہے

کوئی ملال میسر ہے ہجر کا دلشاد
 مرابدن کہ ترے لمس سے تہی نہیں ہے

دلشاد نسیم

*************

رضائے عشق کو تسلیم کرنا پڑتا ہے
کسی کو زندگی دینے کو مرنا پڑتا ہے

کنواں ہو نہر ہو یا ریت کا سمندر ہو
کہ اپنے حصے کا پانی تو بھرنا پڑتا ہے

یہی ہے ریت محبت کی ، ضابطہ ہے یہی
جو بھول جائے اسے یاد کرنا پڑتا ہے

تماشہ دیکھ رہا ہے وہ ساحلوں پہ کھڑا
سو مجھ کو ڈوب کے پھر سے ابھرنا پڑتا ہے

یہ خار خار مسافت ، یہ عشق کا صحرا
یہاں سے اہلِ وفا کو گزرنا پڑتا ہے

دلشاد نسیم

*************

خط تو  بھیجاہے مگر صفحے کو سادہ رکھا
جانے اس شخص نے کیا دل میں ارادہ رکھا

لوگ آتے رہے اور چھوڑ کے جاتے بھی رہے
ہم نے ہر حال میں اس دل کو کشادہ رکھا

 مجھ کو پابند کیا اور وہ آزاد رہا
 وقت ِ رخصت ،  جو پلٹنے کا بھی وعدہ رکھا

اس لیے مات پہ ہوتی ہی رہی مات مجھے
ہوش کم اور جنوں تھوڑا زیادہ رکھا

ہم نے شطرنج بھی کھیلی ہے محبت کی طرح
شاہ کو مات نہ ہوجائے ، پیادہ رکھا

دلشاد نسیم

*************

آیا ہے مجھے راس ترا درد مسلسل
کب یونہی ہوا چہرا مرا زرد مسلسل

لہجے میں ترے گرمی کی لہریں تو بہت تھیں
کیوں ہونے لگے ہاتھ مرے سرد مسلسل

 بازار میں جاتے ہوئے میں خوفزدہ ہوں
کیوں گھورتے جاتے ہیں مجھے مرد مسلسل

کھو جائے نہ منزل کا کہیں مجھ سے نشاں بھی
اڑتی ہے مرے رستے  میں اک گرد مسلسل

لگ جاتی ہے اشکوں کی جھڑی آنکھوں میں میری
آتا ہے تصور میں وہ ہمدرد مسلسل

دلشاد محبت کے قبیلے میں پلی ہوں
رہتا ہے جہاں کرب میں ہر فرد مسلسل

دلشاد نسیم

*************

فیصلہ  وقت کا ٹالا نہیں جاتا مائے
مجھ سے اب خود کو سنبھالا نہیں جاتا مائے

 روز اشکوں سے میں دھو لیتی ہوں آنکھیں اپنی
پھر بھی آنکھوں سے یہ جالا نہیں جاتا مائے

تُو مرے پاس نہیں کس کو سناؤں دکھڑا
دل سےکانٹا یہ نکالا نہیں جاتا مائے

اب کوئی نازنہیں میرا اٹھانے والا
اب کوئی خواب اچھالا نہیں جاتا مائے

تری دلشاد کو لے ڈوبے گا اک روز یہ دل
بن تیرے  دکھ کوئی پالا نہیں جاتا مائے

دلشاد نسیم

*************

" ضروری کال "

محبت کے بہانوں کی کتابیں ساری پاس ہیں اس کے
فون بھی کرتا ہے تو کہتا ہے یہی مجھکو
یک بیک جانے کیسے کال یہ ملی تم کو
مجھے تو کسی اور سے ضروری بات کرنی تھی
بہت ضروری میٹنگ پر بحث کوئی خاص کرنی تھی
چلو .. مل ہی گئی ہے کال تو  بات بھی کر لیتے ہیں
اب تمہاری ہی سن لیتے ہیں
پھر یہ بھی کہتا ہے، مصروف بہت رہتا ہوں ان دنوں
بات کرنے کی بھی فرصت نہیں یار ان دنوں
کھاتے کھاتے کھانا بھی کئی بار اٹھنا پڑتا ہے
کھانے سے یاد آیا ... 
وقت پہ کھانا کھاتی ہو ناں ؟
جلدی بھی سو جایا کرو
دیر تلک جاگنے کی بیماری تمہیں پرانی ہے
تکیے پہ سر رکھ کے جانے کیا کیا سوچتی ہو
ساری الٹی سیدھی سوچیں پھر
کاغذ پہ لکھتی رہتی ہو
جانے اتنی ساری باتیں تم
کیسے یاد رکھتی ہو
اور باتوں سے یاد آیا
آخر کیسے باتوں میں
 لگا لیتی ہو تم مجھکو
تم تو چاہتی ہو یہی کوئی کام نہ رہے مجھکو
یک بیک جانے کیسے کال یہ ملی تم کو
مجھے تو کسی اور سے ضروری بات کرنی تھی
بہت ضروری میٹنگ پر بحث کوئی خاص کرنی تھی 

دلشاد نسیم

*************

"سرد موسم"

موسم بہت سرد ہے ان دنوں
تمہارے شہر میں تو برف بھی پڑ رہی ہو گی
اور  شانوں پہ , تمہارے گر رہی ہو گی
چاہتی ہوں ..،
سیاہ کوٹ پہ گرے سفید برف کے زروں کو
چنوں اس طرح کہ جیسے
مری انگلیاں اپنی پوروں سے تمہارا درد چنتی ہیں
سوچتی ہوں ...،
گھر سے تم جب بھی نکلو اپنے آنچل کا سائباں کر دوں
کہ ...،  زرہ بھی کوئی برف کا , تمہارے بالوں کی الجھنوں کو
چھو سکے نہ پا سکے
پاوں رکھو تم جہاں پر
ہتھیلیوں کو فرش کر دوں
تمہیں سرد دنوں سے شکائت نہ ہو
سو اپنی محبت کی حدتوں سے 
تمہارے دنوں کو گرم کر دوں
اور جو تمہارے ساتھ ہے لڑکی
 کہوں میں اس سے
دور ہے مجھ سے مگر وہ پھر بھی
مرا حبیب ہے
مرے حبیب کا خیال رکھنا
کہ موسم ... بہت سرد ہے ان دنوں 
اور تمہارے شہر میں تو برف بھی پڑ رہی ہو گی

دلشاد نسیم

*************

No comments:

Post a Comment