Marjan Sarmast

نام: عمران خان 
تخلص: مرجان سرمست  
تاریخِ پیدایش:26.6.1989  
جائے پیدائش: قلات- بلوچستان 
موجودہ شہر کانام: تونسہ شریف  
 شعری سفر: جنوری 2015  سے جاری ہے



ہر شخص کو روداد سنانے سے رہا میں 
زندان کی توقیر بڑھانے سے رہا میں 

چہرے سے جسے درد پرکھنا ہے پرکھ لے 
پوشاک پہ تو زخم سجانے سے رہا میں 

لے آؤں گا میں کھینچ کہ اس دشت میں دریا 
دریا میں مگر دشت کو لانے سے رہا میں 

کہنے پہ تیرے آ تو گیا ہوں میں یہاں دل 
کہنے پہ تیرے لوٹ کے جانے سے رہا میں 

یہ مہر و محبت مجھے ورثے میں ملے ہیں
اجداد کی جاگیر لٹانے سے رہا میں 

صدیوں سے میرا ضبط کا عالم نہیں چھوٹا 
سو اشک ندامت کے بہانے سے رہا میں 

مرجان کسی اور مسافت پہ مجھے بھیج 
خوشبو کے تعاقب میں تو جانے سے رہا میں

مرجان سرمست

*************

جب ہوتی رہی درد کی ترسیل مکمل 
اس طور ہوئی ہے میری تکمیل مکمل 

اک بار میں نے اپنے قبیلے کا بتایا 
پھر عشق نے پوچھی نہیں تفصیل مکمل 

دلی کے کئی شعر تھے مصرعے تھے دکن کے 
پھر بھی نہ ہوئی آپکی تمثیل مکمل 

اے خائنِ الفت تجھے کافر بھی پکاروں 
پر ہو نہ سکے گی تیری تذلیل مکمل 

اک جنگ میں تلوار اترتی ہے فلک سے 
اک جنگ کو کرتی ہیں ابابیل مکمل 

اس نے میرے اشکوں کو مکمل نہ گنا تھا 
پر ساتھ تو دیتی رہی قندیل مکمل 

ملتی ہے زرا سی جو تیرے لمس کی خوشبو 
ہو جاتی ہے پھر شعر میں تحلیل مکمل

مرجان سرمست

*************

میرے ہاتھوں میں قلم منہ میں زباں ہے، ہاں ہے 
یعنی اس سر کے مقدر میں سناں ہے، ہاں ہے 

تھا کبھی درد یہاں عشق اسیری میں رہا
تم نے پوچھا ہے ابھی درد جواں ہے، ہاں ہے 

برف کی دیوی تیرا قہر غضبناک بہت
جلتے شعلوں سے اٹھا تیرا دھواں ہے، ہاں ہے

میری افکار میں شامل ہے فقیری کا جلال 
تجھ پہ اے یار میرا ظرف گراں ہے، ہاں ہے 

تجھ سے پیکار کی خاطر کوئی تلوار تو ہو
جانبِ عرش میرا دست رواں ہے، ہاں ہے 

وہ جو اک عکس نگاہوں میں چھپا رکھا تھا
اب نگینوں کی جبینوں سے عیاں ہے، ہاں ہے 

اب بھی آسیب وہاں ہے کہ نہیں، ناں جی نہیں
لیکن آسیب کا وہ خوف وہاں ہے، ہاں ہے

مرجان سرمست

*************

غمگساری کی رسم جاری ہو 
پردہ داری کی رسم جاری ہو  

جائیے۔۔۔۔ کام کیجیے اپنا
آہ و زاری کی رسم جاری ہو 

ڈالیے خاک میرے زخموں پر 
پردہ داری کی رسم جاری ہو 

مانگیے مجھکو طاق راتوں میں  
یار...یاری کی رسم جاری ہو 

روئیے آ کہ میری تربت پر
بے قراری کی رسم جاری ہو 

گاڑھیے زخم زخم میں ناخن
دستکاری کی رسم جاری ہو 

دیجیے تھونپ تہمتیں مجھ پر
ذمہ داری کی رسم جاری ہو

مرجان سرمست

*************

زمین والوں سے عرش والے، مجھے بچا لے 
کیا ہے سب کچھ تیرے حوالے، مجھے بچا لے 

میں اسکی حالت پہ زیرِ تربت تڑپ رہا ہوں
جو مجھکو کہتا تھا مرنے والے، مجھے بچا لے 

جو کل سمندر میں اشک میں نے ملا دیئے تھے 
مجھے سمندر نہ مار ڈالے، مجھے بچا لے 

میں اپنے ہاتھوں سے قتل ہونے کی ضد پہ قائم 
سو آئینوں کو کہیں چھپا لے، مجھے بچا لے 

میں شعر لکھوں گا جی سکوں گا مجھے خبر ہے
تو کھول میری زباں کے تالے، مجھے بچا لے 

میں دور ِ ہجراں کو اپنی حالت بتا رہا ہوں
یہ اشک پی لے یہ درد کھا لے، مجھے بچا لے 

اسے جو دیکھا ادا کا مارا یہ دل پکارا 
مجھے بچا لے مجھے بچا لے،  مجھے بچا لے

مرجان سرمست

*************

مجھے سمے سے ابھی ہمکلام ہونا ہے 
کسی مقیم کا ہو کر مقام ہونا ہے 

ابھی تو خاک اڑانی ہے اس زمانے کی 
طفیلِ عشق ابھی میرا نام ہونا ہے 

جو دے نجات مجھے زہد و کفر کے غم سے 
میرے خمیر میں شامل وہ جام ہونا ہے 

کسی فقیر کا کشکول توڑ دینا ہے 
کسی فقیر کا دل سے غلام ہونا ہے 

نیا نیا ہے سفر پیش رفت کرتا ہوں 
تمہارے شہر میں آ کر تمام ہونا ہے 

نہیں قبیلے سے ڈرتا میں جنگ کرنی ہے 
ابھی تو بعیتِ حضرت امام ہونا ہے

مرجان سرمست

*************

یہ میرے دست پہ کیسا ہنر اتارا گیا 
جہاں پہ تھا ہی نہیں میں وہیں پکارا گیا 

کسی غریب قبیلے کو آرزو دے کر 
کسی امیر کے سر پر مجھے بھی وارا گیا 

کبھی کبھی تو میرے یار بے سبب روئے 
کبھی کبھی تو مجھے آگ سے گزارا گیا 

کئی وجود تھے وہم و گماں میں سوئے ہوئے 
کسی کی شان کی خاطر انہیں بھی مارا گیا 

ہمارے ہاتھ پہ رکھی گئی جو چند کرنیں 
تو ہم سمجھ ہی گئے آج سر ہمارا گیا 

صدائے کن سے میں مرجان یوں ہوا ظاہر 
کہ آب و گِل میں ملا کر مجھے سنوارا گیا

مرجان سرمست

*************

1 comment:

  1. کماااااال حضور ۔۔۔۔ حرف حرف کماااال۔۔۔۔۔۔ داد سے عاجز

    ReplyDelete