نام:نجیح الدین یاسم
تاریخِ پیدایش:6 جنوری 1992
جائے پیدائش:حیدرآباد ،سندھ
شہر کانام:کراچی
شعری سفر: 2012 میں باقاعدہ شاعری کا آغاز کیا
مسجد نہیں گرجا نہیں مندر نہیں محفوظ
اس شہرِ سلاسل میں کوئی گھر نہیں محفوظ
تم ایسے محافظ ہو کہ اب جس کی اماں میں
محفوظ تو لگتے ہیں سبھی پر نہیں محفوظ"
اب آنکھ میں اس کی ہے زمانے کی ادا دوست
اب آنکھ میں اس کی کوئی منظر نہیں محفوظ
خوابوں کی شکایت ہے تمہیں اور یہاں میں
روتا ہوں کہ اب کچھ مرے اندر نہیں محفوظ
قدرت نے رکھا ذ کرِ بہتؔر کو سلامت
تم لوگ سمجھتے تھے یہ لشکر نہیں محفوظ
یاسم
*************
اس پہ شکوہ تو اے خدا نہیں ہے
ہاں جو چاہا تھا وہ ملا نہیں ہے
غیر کا عکس تیری آنکھوں میں
ایسے ملنے کا حوصلہ نہیں ہے
اس کی آنکھیں سنوار دیتی ہیں
اب مرے گھر میں آئینہ نہیں ہے
جس کا معمول تھا مرا دیدار
اب پلٹ کر بھی دیکھتا نہیں ہے
زندگی بس فراقِ یار پہ رک
آگے جانے کا راستہ نہیں ہے
اس طرح ایک دم نہیں ہوتا
ہجر ہے کوئی حادثہ نہیں ہے
یہ عجب شہر ہے یہاں یاسم
کوئی بھی درد آشنا نہیں ہے
یاسم
*************
جھوٹی مسکاں لبوں پہ لا یونہی
تو بھی دنیا میں دل لگا یونہی
اک گلی سے گزر ہوا میرا
چلتے چلتے میں رک گیا یونہی
رات تنہا تھا اپنے کمرے میں
یاد آنے لگا خدا یونہی
اس نے پوچھا سبب اداسی کا
پونچھ کے اشک کہہ دیا یونہی
بات کتنی عجیب ہے یاروں
ہو رہا ہے وہ بس جدا یونہی
وہ مجھے چھوڑ جانے والا تھا
چھیڑ بیٹھا میں مدعا یونہی
اس کو معلوم ہے منالوں گا
مجھ سے رہتا ہے وہ خفا یونہی
یاسم
*************
محبت جان لیتی ہے
محبت جان لیتی ہے
کہ کس کے دل میں رہنا ہے
کسے کتنا ستانا ہے
کسے کتنا رلانا ہے
کہاں سپنے دکھانے ہیں
کہاں شب بھر جگانا ہے
محبت جان لیتی ہے
کہ کس کے دل میں رہنا ہے
کدھر کتنا ٹھہرنا ہے
کہاں رستہ بدلنا ہے
کہاں صدیاں بتانی ہیں
کہ اب دل سے نکلنا ہے
محبت جان لیتی ہے
کہ کس کے دل میں رہنا ہے
حقیقت کب بتانی ہے
کہانی کب سنانی ہے
کہ اب سوہنی نے مرنا ہے
کہ دریا میں روانی ہے
محبت جان لیتی ہے
کہ کس کے دل میں رہنا ہے
جہاں جسموں کی خواہش ہو
جہاں جذبوں کی سازش ہو
محبت پھر نہیں رہتی
جدھر الفت میں لغزش ہو
محبت جان لیتی ہے
کہ کس کے دل میں رہنا ہے
یاسم
*************
ذرا موسم بدلنے دے
ابھی اشعار لکھنے کا
ابھی تو نظم کہنے کا
حسیں موسم نہیں آیا
ابھی تو ہجر پھیلا ہے
ابھی پتوں نے پیلی شال اوڑھی ہے خزاؤں کی
ابھی تو دل کے آنگن میں
سبھی پتوں نے گرنا ہے
ابھی وحشت نے راتوں میں جگانا ہے
ابھی آنکھوں میں ویرانی نے آنا ہے
ابھی کیسے ترے خوابوں کو آنکھوں میں جگہ دے دوں
ابھی کیسے ترے چہرے پہ کوئی میں غزل کہہ دوں
ابھی تو ہجر پھیلا ہے
ذرا موسم بدلنے دے
یاسم
*************
No comments:
Post a Comment