Sada Hussain Sada

نام: صدا حسین وڈیرا
قلمی نام: صدا حسین صداؔ
تاریخ پیدائش: 2 مارچ 1975
جائے پیدائش: سیالکوٹ شہر
تعلق : وزیرآباد سے
موجودہ سکونت: کویت
دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں
پہلا شعر مجموعہ (غزلیات ) ٹائٹل: صدا
دوسرا شعری مجموعہ (غزلیات) ٹائٹل:  تم سے تھی زندگی
شعری سفر کا آغاز 1994 سے کیا جب میٹرک کا طالب علم تھا



نارسائی سے جو فُرصت نہیں ملنے والی
زندگی حسبِ ضرورت نہیں ملنے والی

بھول بیٹھے ہیں قلمکار قلم کی عظمت
اب کسی حرف کو حُرمت نہیں ملنے والی

بعد مرنے کے مناتا ہے زمانہ شامیں
جیتے جی فن کی تو قیمت نہیں ملنے والی

جان لگتی ہے مری جان کمانے میں یاں
یوں ہی خیرات میں عزت نہیں ملنے والی

بٹ چکی رنگ برنگے سے مسالک میں جو
خاک ہو کر بھی یہ ملّت نہیں ملنے والی

قحط تہذیب کا یہ ختم صداؔ ہونے تک
حُسنِ اخلاق کو عظمت نہیں ملنے والی

آس اُمید جگانے سے صداؔ کیا حاصل
اب وہ پہلی سی محبت نہیں ملنے والی

*************

وصل کی پہلی شام ہونے تک
مر گئے تیرے نام ہونے تک

اُس نے پلکیں تلک نہ جھپکی تھیں
مست آنکھوں کو جام ہونے تک

ہجر کاٹا ہے بیس سالوں کا
یار سے ہم کلام ہونے تک

کتنے صدمے اُٹھانے ہوں گے اور
اس محبت کو عام ہونے تک

آدمی آدمی ہی رہتا ہے
خواہشوں کا غلام ہونے تک

یوں ہی پردیس کاٹنا ہے کیا؟
زندگانی تمام ہونے تک

کب کسی پر صداؔ یہ کھُلتا ہے
عشق نیندیں حرام ہونے تک

*************

اس دل کی بغاوت سے دوچار ہیں مدت سے
یکطرفہ محبت سے سرشار ہیں مدت سے

بھولے ہیں قناعت سب بھولے ہیں توکل سب
مخلوق میں اشرف پر لاچار ہیں مدت سے

انسان ہی کاٹے ہے انسان یہاں پیارے
دنیا میں جہنم کے آثار ہیں مدت سے

ہر شخص حقیقت میں وحشی ہے درندہ ہے
یاں سجتے محبت کے بازار ہیں مدت سے

ہر ایک تعلق سے آتی ہے غرض کی بُو
ہر ایک تعلق سے بیزار ہیں مدت سے

یوں ہی تو نہیں گلیوں کی خاک ہوئے بیٹھے
وا عشق محبت کے اسرار ہیں مدت سے

ٹوٹا ہے بھرم جب سے اِس سادہ مزاجی کا
ہم آپ صداؔ اپنے دلدار ہیں مدت سے

*************

یاری ہے دِکھاوے کی ، تُو یار دِکھاوے کا
گر دل سے نہیں تو مت کر پیار دِکھاوے کا

پردیس سے لوٹا ہوں تو سوچ رہا ہوں ، پھر
وہ ہاتھ ملائے گا سو بار دِکھاوے کا

کیوں کھیل سمجھتے ہو اِس عشق کی دلدل کو
اقرار دِکھاوے کا انکار دِکھاوے کا

دل سے جو کہا ہوتا ہم شام وہیں ٹِکتے
اِصرار تو تھا اُس کا اصرار دِکھاوے کا

خود غرض زمانے نے خود غرض بنا ڈالا
ہم خاک نشینوں کا معیار دِکھاوے کا

پہچان میں آیا تھا اب جان کو آیا ہے
مَیں نے جو بنایا تھا گھر بار دِکھاوے کا

دو بول محبت کے کافی ہیں منانے کو
غصّہ ہے صداؔ مجھ میں پر یار دِکھاوے کا

*************

یہ بات الگ ہے سب مجذوب سمجھتے ہیں
مطلب کے تعلق کو ہم خوب سمجھتے ہیں

دنیا ہو کہ جنت  ہے اِنعام انہی کا ہی
محبوبِ خدا کو جو محبوب سمجھتے ہیں

اغیار سے بھی بد تر ہیں رُوپ میں اپنوں کی
جو لوگ شریعت کو معیوب سمجھتے ہیں

تم درس محبت کا دو جا کے کہیں اور ہی
ہم عشق کے مارے ہر اسلوب سمجھتے ہیں

ہر شعر میں ڈھالا ہے کچھ ایسے ترا پیکر
اب لوگ تجھے مجھ سے منسوب سمجھتے ہیں

تم لاکھ دلیلیں دو جدّت کی صداؔ پر ہم
تہذیب کے باغی کو آشوب سمجھتے ہیں

*************

صدا حسین صدا

No comments:

Post a Comment