Tamoor Zulfiqar

نام: تیمور ذوالفقار
ولدیت: محمد ذوالفقار
تعلیم: ایم فل ۔ ایجوکیشنل پلاننگ اینڈ مینجمنٹ (جاری)
آبائی علاقہ: مری، پاکستان
موجودہ رہائش: راولپنڈی، پاکستان
تاریخ پیدائش: 17/11/1987
     
تعارف شاعری: شاعری کا باقاعدہ آغاز 2011 میں کیا ۔ غزل اور آزاد نظم دونوں ہی ان کی محبوب اصناف ہیں تاہم ہائیکو لکھنے کا تجربہ بھی ان کے ہاں خاصا خوشگوار ہے۔
    

حساس شاعر

وہ کہتے ہیں کہ مت لکھو
تمہارے اس طرح لکھنے سے کیا ہو گا
فقط نظمیں بنانے سے
مسائل حل نہیں ہوتے
کہ تم گھنگھرو پہن کے ناچنے والی
کسی کوٹھے کی رقاصہ سے بالکل ملتے جلتے ہو
تماشا خود لگاتے ہو
تماشائی بلاتے ہو
بہت سی داد لیتے ہو، بہت سی داد دیتے ہو
کہ تم بھی خود نمائی کے سحر میں مبتلا ہو کر
بھری محفل میں رقصاں ہو 
وہ کہتے ہیں کہ مت لکھو
کہ تم جس بھوک سے مرتے ہوئے بچے پہ لکھتے ہو 
کبھی اس کی مدد کے واسطے تم نے 
کیا ہے کچھ ؟
وہ جس بے بس اور لاچار سے مزدور کی بیٹی کے ارماں پر 
تم نے نظم لکھی تھی
کبھی اس سے ملے ہو تم ؟
کبھی تم نے وہاں جا کر یہ دیکھا ہے
کہ گرتی جھونپڑی میں اک فقط ٹوٹے ہوئے مٹکے سے پانی پی کے جینے کی اذیت ہے تو کیسی ہے ؟
کبھی تم نے کسی مرتے ہئے بیمار بچے کے
سسکتے ہونٹ دیکھے ہیں 
کبھی رکھا ہے اس کی تپتی پیشانی پہ ہاتھ اپنا
کہ جس کی ماں کی حرمت بھی 
مسیحائی کے بدلے میں 
یہاں نیلام ہوتی ہے
کسی زردار کے پائوں میں اک مظلوم کی رکھی ہوئی دستار کو تم نے
کبھی جا کر اٹھایا ہے ؟
کبھی تم نے بہن کا مرتبہ دے کر
کسی تہمت زدہ لڑکی کی آنکھوں سے نکلتے اشک روکے ہیں ؟
کبھی اس ہاتھ کو تم نے
قلم کو چھوڑ کر دستِ پدر کا روپ بخشا ہے؟
کہ کتنے باپ مرتے ہیں یہاں کے بم دھماکوں میں 
تم ان کے غم تو لکھتے ہو
مداوا کیوں نہیں کرتے ؟
وہ کہتے ہیں کہ مت لکھو 
تمہارے اس طرح لکھنے سے کیا ہو گا ؟
فقط نظمیں بنانے سے
مسائل حل نہیں ہوتے
مگر میں پھر بھی لکھتا ہوں
کہ میرا کام لکھنا ہے
مجھے معلوم ہے اب کہ 
شعور و آگہی کی جو 
یہ سب باتیں وہ کرتےہیں 
مرے لکھنے سے پہلے تو 
کبھی ممکن نہیں تھیں، بس
مجھے ہر روز لکھنا ہے
مجھے ہر ظلم کو نوکِ قلم سے چاک کرنا ہے
مجھے ہر غم کو لکھنا ہے
کہ میں اک درد میں لپٹا ہوا ’’حساس شاعر ‘‘ ہوں 

*************

معتبر ہے ، معتمد ہے وہ مرا سالار ہے
ہر قلم جو ظلم سے یاں برسرِ پیکار ہے

وہ مری جانِ غزل ہے، حاصلِ اشعار ہے
وہ نہیں گر سامنے، مشقِ سخن بےکار ہے

اک کرائے کے مکاں میں چند اجڑی حسرتیں
پوچھتی ہیں مجھ سے اکثر کیا تجھے درکار ہے؟

دائرہ در دائرہ یہ زندگی الجھی رہی 
اور عجب سے زاویے پر اب مرا پرکار ہے

شرط بھی کیا شرط ہے اس کی رفاقت کے لیے
اک بڑے سے شہر میں چھوٹا سا گھر درکار ہے

دل میں آکر، گھر بنا کر، در بنا کر چل دیا
وہ بڑا بہروپیا ہے، وہ بڑا فنکار ہے

پاس وہ رکھے وفا کا یا مجھے رسوا کرے 
اب مرے بارے میں اس کا فیصلہ بےکار ہے

ہے محبت میں ریاضت کا ثمر تیمور یہ 
اب ترا انکار بھی میرے لیے اظہار ہے

*************

مسئلہ ہوں تو کوئی حل بھی نکالا جائے
مجھ کو ایسے نہ سرِ بزم اچھالا جائے

وہ جو تجدیدِ محبت کے گناہ ہیں جاناں
کس کے حصے میں انہیں آج سے ڈالا جائے؟

ہم ہیں انصاف کے طالب، یہ ہمارا حق ہے
یوں سوالی کی طرح ہم کو نہ کو ٹالا جائے

خوں بہاتا ہے جو انصار کا گھر میں آ کر
ایسے ہر ایک مہاجر کو نکالا جائے

جن کو بچپن میں غریبی نے سنبھلنے نہ دیا
ایسے بچوں کو بہر حال سنبھالا جائے

*************

اس قدر ٹوٹ کے مجھ سے تو محبت کر لے
اپنے کاسائے محبت میں محبت بھر لے

اشک آنکھوں میں مری دیکھ کے ہجرت کر لی؟
مشورہ کس کا تھا دریا کے کنارے گھر لے ؟

ہو گا منظور ہمیں جو بھی نتیجہ نکلا
دل کے حلقے میں ذرا رائے شماری کر لے

تو نے جس شوق سے آنکھوں کو بنایا دریا
آکسی روز اسی شوق سے پانی بھر لے

اب نہ کر مجھ سے یہ دولت کا تقاضا ظالم
اب نہ یوں ساتھ مرا چھوڑ، گزارا کر لے

*************

دام اپنا گرا لیا جائے 
اور تعلق بچا لیا جائے

میں نہیں ہوں صدا وہ مفلس کی
جس کو فورا دبا لیا جائے

بات ہونی ہے میرے عیبوں کی؟
کیوں نہ مجمع لگا لیا جائے؟

پھر نہ ہو مفلسی، محبت میں 
درد اتنا کما لیا جائے

آخری ہوں مرید مجنوں کا
خوب مجھ کو ستا لیا جائے

اپنی نظروں سے گر گیا ہوں میں 
مجھ کو اوپر اٹھا لیا جائے

*************

بعد میرے وہ گر پڑا ہو گا
یا بہت کرب سے کھڑا ہو گا

چاہ میں وہ منائے جانے کی
مجھ سے دانستہ لڑ پڑا ہو گا

ہے گماں، اس کے دل میں یادوں کا
سلسلہ اب تو چل پڑا ہو گا

بند کر لوں جو میں ابھی آنکھیں
تو مرے سامنے کھڑا ہو گا

یہ جو قد ہے تری محبت کا
جھک کے رہنے سے ہی بڑا ہو گا

زندگی اب تو مجھ کو جانے دے
راستہ منتظر کھڑا ہو گا

*************

مجھ سے روٹھے ہو، مدّعا کیا ہے؟
جرم میرا،مری خطا کیا ہے؟

اب مرا خود سے رابطہ کم ہے
مجھ میں باقی مرا رہا کیاہے؟

اک وہی جانتا ہے پورا سچ
پوچھتا ہے جو ماجرا کیا ہے؟

مجھ کو نفرت سے بھی محبت ہے
اس میں میری بھلا خطا کیا ہے؟

پوچھ لے میری دل لگی سے تو 
بے وفائی ہے کیا؟ وفا کیا ہے؟

*************

تیمور ذوالفقار

4 comments:

  1. واہ واہ واہ بہترین کلام ہے۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

    ReplyDelete
  2. واہ واہ واہ بہترین کلام ہے۔۔ اللہ کرے زور قلم اور زیادہ

    ReplyDelete
  3. bohot khoob bhaee Tamoor Bhaai Khush rahain abaad rahain

    ReplyDelete