نام: شعیب مظہر
تاریخِ پیدایش: 30 مارچ، 1987
جائے پیدائش: جھنگ
شہر کانام: اسلام آباد
شعری سفر : 2012 سے باقاعدہ شاعری کا آغاز ہوا۔ اور کتاب "محبت رنگ رکھتی ہے" اپریل 2015 میں شائع ہوئی۔
محبت رنگ رکھتی ہے
سنا ہے مَیں نے لوگوں سے
محبت اندھی ہوتی ہے
مَیں کیسے مان لوں جاناں؟
یہاں تو مَیں نے دیکھا ہے
محبت رنگ رکھتی ہے
جہاں میں زندہ رہنے کے
ہزاروں ڈھنگ رکھتی ہے
جو اِس کے ساتھ چلتے ہیں
اُنہیں یہ سنگ رکھتی ہے
محبت رنگ رکھتی ہے
بہت ہی خوبصورت ہیں کھلی آنکھیں محبت کی
محبت روشنی بھی ہے ہر اک چشمِ بصیرت کی
محبت ایک تتلی ہے
جو گلشن کی فضاؤں میں
انوکھے رنگ بھرتی ہے
اگر اِس کو پکڑ لیں تو
پروں کے رنگ دے دیتی ہے یہ ہاتھوں کی پوروں کو
مگر پھر اُڑ نہیں سکتی
محبت نرم و نازک ہے
محبت پھول جیسی ہے
کسی چنچل حسینہ کی
نرالی بھول جیسی ہے
محبت دل میں اترے تو
مہکتا ہے مشامِ جاں
محبت چند لمحوں میں وہ رشتے جوڑ دیتی ہے
جو نفرت توڑ دیتی ہے
محبت اک کہانی ہے
محبت زندگانی ہے
محبت قدر دانوں کا ہمیشہ مان رکھتی ہے
یہ ہر محفل میں اپنی اک الگ پہچان رکھتی ہے
محبت جان رکھتی ہے
یہ دل والوں کی بستی میں دِلوں پر راج کرتی ہے
محبت زندگی کی داستاں میں رنگ بھرتی ہے
یہ ایسے کام کرتی ہے
مَیں کیسے مان لوں جاناں؟
محبت اندھی ہوتی ہے
محبت شان رکھتی ہے
الگ پہچان رکھتی ہے
وفا کے مرَغ زاروں میں
یہ مظہرؔ سنگ رکھتی ہے
محبت رنگ رکھتی ہے
*************
بہت سوچا تھا کم سوچا کریں گے
ترے بارے جو ہم سوچا کریں گے
زمانے بھر میں خوشیاں بانٹ کر ہم
زمانے بھر کے غم سوچا کریں گے
فقط غم ہی نہیں خوشیاں بھی دی تھیں
ترے لطف و کرم سوچا کریں گے
نجانے کیوں جدا ہوتے ہوئے بھی
تری نظریں تھیں خم، سوچا کریں گے
تری قربت کے لمحے زندگی تھے
ہیں کیوں دل پر رقم سوچا کریں گے
ہماری دید سے ہوتی تھیں تیری
خوشی سے آنکھیں نم، سوچا کریں گے
نجانے کس لئے توڑا تھا تم نے
محبت کا بھرم، سوچا کریں گے
ابھی زندہ ہیں تو پوچھے نہ کوئی
جونہی نکلے گا دم، سوچا کریں گے
شعیبؔ اُن کو کہاں تم سا ملے گا؟
یہ پتھر کے صنم سوچا کریں گے
چلے ہیں دو قدم جو ساتھ مظہرؔ
اُنہیں ہم ہر قدم سوچا کریں گے
*************
دل نے کھایا جو وار شیشے کا
چیخ اٹھا یہ جار شیشے کا
مَیں نے پتھر کے گھر میں دیکھا ہے
سارا نقش و نگار شیشے کا
راہ کے سنگ بھی ہیں نوکیلے
اور ہے راہوار شیشے کا
ساتھ چلتے تو کس طرح چلتے؟
لوگ پتھر کے پیار شیشے کا
تم نے دل میں مجھے اتارا ہے
کیا مگر اعتبار شیشے کا؟
بانہیں میرے گلے میں ڈالو ناں
اچھا لگتا ہے ہار شیشے کا
ایک پتھر تباہ کر دے گا
ہائے یہ کاروبار شیشے کا
ساری بستی نظر میں ہے مظہرؔ
میرا گھر ہے کہ غار شیشے کا؟
*************
دی یاد نے دستک جو کبھی خواب میں آ کر
تصویر تری چوم لی آنکھوں سے لگا کر
رہتی ہیں تعاقب میں ہوس کار نگاہیں
اے حسن سرِ بزم تُو پردے میں رہا کر
تُو مجھ کو کہاں ڈھونڈتا پھرتا ہے جہاں میں
رہتا ہوں ترے دل میں کبھی دیکھ لیا کر
ارمان مچلتے ہیں تڑپتا ہوں اکیلا
ساون کی کوئی شام مرے نام کیا کر
پڑھتا ہی نہیں کوئی مرے غم کی کہانی
پھرتا ہوں مَیں آنکھوں میں کئی خواب سجا کر
جذبوں کے شہنشاہ سے اے حسن کی ملکہ
تنہائی کے لمحوں میں کبھی مل بھی لیا کر
زلفیں شبِ ظلمت کی سمیٹی نہیں جاتیں
اے چاند مرے گھر کو بھی چمکا کبھی آ کر
بیٹھا ہوں سرِ راہ یہ اُس شوخ سے کہنا
اِتنا سا مرا کام ہی اے بادِ صبا کر
اک شخص نے مجھ سے یہ کہا تھا اے سخنور!
سنتا ہے تری رب تُو مرے حق میں دعا کر
جو لوگ بھی کرتے ہیں ترے ساتھ جفائیں
مظہرؔکا دل تو کہتا ہے ان سے بھی وفا کر
ساقی جو نظر آئے سرِ راہ بھی مظہرؔ
تُو جام محبت کے نگاہوں سے پیا کر
*************
کرتے ہیں مرے نام وہ اک شام علیحدہ
اُن کے ہیں زمانے سے سبھی کام علیحدہ
اِس دل سے حسینوں کو نکالا نہیں جاتا
بت خانے سے ہوتے نہیں اصنام علیحدہ
دل پر ہیں کئی زخم جو دیکھے نہیں جاتے
یہ عشق الگ روگ ہے، آلام علیحدہ
افلاس کا مارا ہوں خوشی کیسے خریدوں؟
اُن کی تو اداؤں کے بھی ہیں دام علیحدہ
ملتا ہے رقیبوں سے بھی ہنس ہنس کے منافق
کرتا ہے مرے دل کو بھی وہ رام علیحدہ
اُس نے جو کیا آنکھ سے مبہم سا اشارہ
الفت ہے کہ نفرت ہے یہ ابہام علیحدہ
جب بھی ترے آنے کی خبر مجھ کو ملی ہے
رکھا ہے ترے نام کا ہر کام علیحدہ
رکتی ہوئی سانسوں کا الگ شور ہے مظہرؔ
دھڑکن نے مچا رکھا ہے کہرام علیحدہ
*************
عشق دل سے جدا نہیں ہوتا
دردِ دل کی دوا نہیں ہوتا
یاد رکھوں کہ بھول جاؤں اُسے؟
مجھ سے یہ فیصلہ نہیں ہوتا
وہ اترتے ہیں پار دریا کے
جن کا کچا گھڑا نہیں ہوتا
یہ زمانہ برا بناتا ہے
ورنہ کوئی برا نہیں ہوتا
دینِ فطرت سے دور رہ کر تو
کوئی بھی پارسا نہیں ہوتا
بات وہ بے دلیل ہوتی ہے
جس کا کوئی سِرا نہیں ہوتا
جام چلتے ہیں جسم بِکتے ہیں
تیری محفل میں کیا نہیں ہوتا؟
جب الجھتی ہے ڈور سانسوں کی
اُس کا کوئی سِرا نہیں ہوتا
ظلم ڈھا کر ہو بے خبر ایسے
جیسے کچھ بھی کیا نہیں ہوتا
عشق کے دام سے شعیبؔ کبھی
دل کا پنچھی رِہا نہیں ہوتا
*************
Strange Relationship
عجب رشتہ ہمارے درمیاں قائم ہے برسوں سے
بنا ہے وہ نہ ٹوٹا ہے
نہ سچا ہے نہ جھوٹا ہے
نہ کوئی نام ہے اِس کا
نہ کوئی کام ہے اِس کا
کبھی اتنا قریب آتا ہے کوئی مہرباں ہو کر
کہ جیسے ساتھ برسوں کا نبھانا چاہتا ہے وہ
مگر ایسا نہیں شاید
کبھی وہ دور ہو تو یوں مجھے محسوس ہوتا ہے
کہ صدیوں کی مسافت ہے ہمارے درمیاں حائل
مسافت ہی وہ ایسی ہے کبھی جو کم نہیں ہوتی
مری آنکھیں برستی ہیں
یہ دھرتی نم نہیں ہوتی
*************
شعیب مظہر
No comments:
Post a Comment