نام : محمد خلیل الرحمٰن خلیل
تاریخ پیدائش: 16 دسمبر 1965
جائے پیدائش: وزیر آباد
موجودہ شہر: برما ٹاؤن اسلام آباد
شعری سفر: 2005 سے
میں گردابِ عصیاں کا مارا ہوں یا رب
مگر نام تیرا ہی لیتا ہوں یا رب
مجھے پھر دکھا دے وہ پیارا سا کعبہ
اگرچہ گنہگار بندہ ہوں یا رب
بہت بے بسی نے مجھے آ لیا ہے
بنا بے کسی کا میں چہرہ ہوں یا رب
مرا ناتواں دل ہوا غم سے بوجھل
فقط مانگتا اک سہارا ہوں یارب
ترے نام لیوا پہ آلام بھاری
عطا کر سکوں اب میں ہارا ہوں یا رب
گناہوں کی عادت سے آیا ہوں عاجز
ہدایت عطا کر میں اندھا ہوں یارب
مجھے در بدر کا نہ محتاج کرنا
تجھے چاہتا ہوں میں تیرا ہوں یارب
طلب میں بسر ہو جو باقی ہے رہتی
بڑا بحرِ عصیاں میں ڈوبا ہوں یارب
خلیل اب تو رو رو کے کہہ دے خدا سے
مجھے بخش دے در پہ آیا ہوں یارب
*************
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
وہ فاصلوں کو مٹاتے کوئے خدا پہنچے
کہ لامکاں کے بلاوے پہ مصطفیٰؐ پہنچے
ہوا چلی تھی مدینے کے سبزہ زاروں سے
محبتوں کے یوں پیغام جابجا پہنچے
جہالتوں کے زمانے تھے قتل و غارت تھی
سبق سکھانے اخوت کا رہنما پہنچے
کہ جن کے آنے سے بیٹے عطا ہوئے سب کو
وہ خوشیاں تھامے ہوئے میرے مصطفیٰؐ پہنچے
کہیں پہ آگ بھجی تھی کہیں گرے تھے بُت
زمانے بھر کو بتانے وہ اک خدا پہنچے
چلیں مدینے میں کملی کو اوڑھ کر آقا
تو سایہ دینے انہیں کالی اک گھٹا پہنچے
پلک جھپکنے سے پہلے مدینے جانا خلیل
ہوا اگر یہ اشارہ کہ تُو گدا پہنچے
*************
نعت رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
اس سے بڑھ کر مجھے عزت نہیں ملنے والی
کوئی سرکار سی نسبت نہیں ملنے والی
ان کی مدحت میں اُتارا ہے خدا نے قرآں
ایسی تاریخ میں چاہت نہیں ملنے والی
سب جہانوں کے لیے ان کو بنایا رحمت
ان کے جیسی کوئی خلقت نہیں ملنے والی
قاب قوسین سی قربت میں ملاقات رہی
وصل کی شب کی محبت نہیں ملنے والی
جاں کے نذرانے دیے جائیں مسلماں ان پر
بے مثال ایسی حمیت نہیں ملنے والی
سب سخن تم بھی خلیل ان پہ نچھاور کر دو
نعت سے بڑھ کے سعادت نہیں ملنے والی
*************
اپنے اندر ہی کھو گیا ہوں میں
خود سے بیگانہ ہو گیا ہوں میں
زندگی کی تلاش میں تھک کر
اک بیاباں میں سو گیا ہوں میں
خون آشام تھی مری قسمت
ایسا قرطاس دھو گیا ہوں میں
اگ نہیں سکتی اب تو فصلِ بہار
بیچ پتھر کے بو گیا ہوں میں
مضطرب ہے سکوت دل میرا
شور ایسا سمو گیا ہوں میں
دل کا دامن خوشی سے بھیگا نہ تھا
آج جی بھر کے رو گیا ہوں میں
اپنی تاریخ ڈھونڈنے کو خلیل
قصہ پارینہ ہو گیا ہوں میں
*************
جو غموں کو پیا نہیں کرتے
در حقیقت جیا نہیں کرتے
توڑ کر دل کو جانے والوں سے
ہم تو بدلہ لیا نہیں کرتے
تیری بستی کے لوگ ظالم ہیں
چیر کر دل سیا نہیں کرتے
ایک چپ سادھ کر چھپا لو غم
دل کے شکورے کیا نہیں کرتے
جب سے تاریک دل ہمارا ہوا
ہم بھی روشن دیا نہیں کرتے
رند ہم سے تمہیں ملیں گے کہاں
جو گلے ساقیا نہیں کرتے
ہم نمک پاش دوستوں کو خلیل
راز دل کے دیا نہیں کرتے
*************
کیسے ٹوٹا دل تمہارا، کچھ سنا
کس ادا سے تجھ کو لوٹا ، کچھ سنا
ہم نہ کہتے تھے کہ ظالم ہیں وہ لوگ
کیسے چھہنا اک سہارا کچھ سنا
عشق اک بپھرا ہوا طوفان ہے
کیا مزہ ہے بیچ دریا، کچھ سنا
اک محبت حادثے سے کم نہیں
کیا رقیبوں نے کہا تھا، کچھ سنا
تو وفا کا اک علمبردار تھا
زندگی سے کیسے ہارا، کچھ سنا
کچھ دنوں سے گم کہاں ہے اے خلیل
کیا ہوا ہے حال تیرا کچھ سنا
*************
ہم سلگتے رہے چمکتے رہے
آسماں کے دئیے سَرکتے رہے
وصل کی پیاس کا کیا ذکر کریں
ہم سحر ہونے تک بلکتے رہے
یاس کی تیرگی نے ظلم کیا
آنسوؤں کے دئیے بھڑکتے رہے
ہم سلگنے سے راکھ بننے تک
اک شناسا کی راہ تکتے رہے
اک نظر کیا پڑی خلیل ان پر
عمر بھر راستہ بھٹکتے رہے
*************
اپنا رختِ سفر گنوا بیٹھا
میں سرائے میں دل لگا بیٹھا
شہر کے راستوں میں گم ہو کر
اپنی منزل کو ہی بھلا بیٹھا
جو ملا تھا عروجِ آدم کو
اس کو پاتال میں گرا بیٹھا
دل میں باقی رہا نہ خوفِ خدا
اس میں ابلیس گھر بنا بیٹھا
روح کو جسم کا بنا کے غلام
آتشِ نفس میں جلا بیٹھا
صرف توبہ کا رہ گیا خانہ
ہر طرف سے تو مات کھا بیٹھا
اے خدا بخش دے گناہ مِرے
تیرے در پر خلیل آ بیٹھا
*************
محمد خلیل الرحمٰن خلیل
No comments:
Post a Comment