Azhar Fragh

نام:اظہر فراغ
تاریخ پیدائش: 31 اگست 1980
جائے پیدائش: اوکاڑہ
موجودہ شہر: اوکاڑہ
شعری سفر: شاعری کا باقاعدہ آغاز 19 سال کی عمر سے کیا۔
کتاب: میں کسی داستاں سے ابھروں گا




تنگی ِ رزق سے ہلکان رکھا جائے گا کیا  
دو گھروں کا مجھے مہمان رکھا جائے گا کیا 

مان بھی لے کہ تجھے میں نے بہت چاہا ہے
  دوست سر پر مرے قرآن رکھا جائے گا کیا 

درد کا شجرہ دکھانے کے لئے مقتل میں 
ساتھ خنجر کے نمک دان رکھا جائے گا کیا

خوف کے زیر ِ اثر تازہ ہوا آئے گی
اب دریچے پہ بھی دربان رکھا جائے گا کیا 

کس بھروسے پہ اذیت کا سفر جاری ہے
 دوسرا مرحلہ آسان رکھا جائے گا 

*************

یہی نہیں کہ یہ تعبیر کا معاملہ ہے  
ہمارے خواب کی توقیر کا معاملہ ہے

چلا تو لیتا میں کام ایک آدھ اشک سے بھی
مگر یہاں غم ِ شبیر کا معاملہ ہے 

اسے بھی اس  کے مسائل نے روک رکھا ہے 
ہمارے ساتھ بھی تقدیر کا معاملہ ہے

کرے تو کیسے کرے بھائی بھائی کو تسلیم 
یہ خون کا نہیں جاگیر کا معاملہ ہے 

تمھاری ذات کے ملبے کا کیا کروں گا میں 
جہاں تلک مری تعمیر کا معاملہ ہے 

معاصرین ِ  غزل  سے معافی چاہتا ہوں 
یہ حرمت ِ ہنرِ میر کا معاملہ ہے

*************

رنج ِ انکار اٹھائیں گے نہیں 
سلسلہ اور بڑھائیں گے نہیں

موت کی دوسری کوشش پر لوگ
مرنے والے کو بچائیں گے نہیں

باز رہیے ابھی انگڑائی سے آپ 
ورنہ تصویر میں آئیں گے نہیں 

کیسے فطرت سے بغاوت کر لیں 
خاک ہیں خاک اڑائیں گے نہیں 

ہم اگر تیرا بھرم رکھ بھی لیں
لوگ لوگوں سے چھپائیں گے نہیں 

ہم پلٹتا ہوا دیکھیں گے تمہیں 
ہم چراغوں کو بجھائیں گے نہیں 

فائدہ ترکِ مراسم کا فراغ 
ہم اسے بھول تو پائیں گے نہیں

*************

ہوا کے رخ پہ دیا دھر نہیں گیا تھا میں 
بچھڑ گیا تھا کوئی مر نہیں گیا تھا میں 

یہ اور بات کہ میں نامراد لوٹ آیا 
مگر قطار میں لگ کر نہیں گیا تھا میں 

سبھی نے دیکھا مجھے اجنبی نگاہوں سے 
کہاں گیا تھا اگر گھر نہیں گیا تھا میں 

ہوا ضرور تھا اوجھل نگاہ سے لیکن 
گئے ہوؤں کے برابر نہیں گیا تھا میں 

پرائے کرب کی تحویل میں دیا گیا تھا 
خوشی سے آگ کے اندر نہیں گیا تھا میں 

مرے خلا پہ زمانوں کی گرد صرف ہوئی
پلک جھپکتے ہوئے بھر نہیں گیا تھا میں

*************

سوچا ہے کیا معاوضہ سائے کا آپ نے
کہہ تو دیا شجر کو کرائے کا آپ نے

لگتا ہے واپسی کا ارادہ نہیں رہا
نقشہ بدل دیا ہے سرائے کا آپ نے

اپنی جگہ بجا ہے کہانی کا اختتام 
مطلب غلط لیا ہے کنائے کا آپ نے

شاہی نہیں ہے منصب ِساقی ہے یہ جناب 
رکھا ہے فرق اپنے پرائے کا آپ نے

احمق لگے ہوئے ہیں عبث بھاگ دوڈ میں 
دامن بھرا ہے بیٹھے بٹھائے کا آپ نے

*************

دھوپ میں سایہ بنے تنہا کھڑے ہوتے ہیں
بڑے لوگوں کے خسارے بھی بڑے ہوتے ہیں

ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں
ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں

یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ
صبح ہوتے ہی کنارے پہ پڑے ہوتے ہیں

ہجر دیوار کا آزار تو ہے ہی لیکن
اس کے اوپر بھی کئی کانچ جڑے ہوتے ہیں

آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں
ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں

*************

اظہر فراغ


2 comments: