Imran Aami

نام: عمران عامی 
تاریخ پیدائش: 5 اکتوبر 1980 
موجودہ شہر: راولپنڈی
 شعری سفر کا آغاز 1999/2000


صرف ایسا نہیں، تصویر لگا رکھی ہے 
ہم نے دیوار کی قیمت بھی چُکا رکھی ہے 

کوئی اتنا بھی نہ آزاد سمجھ لے ہم کو 
پاؤں میں اِس لیے زنجیر سجا رکھی ہے 

ہم جو روتے ہیں تو روتے ہی چلے جاتے ہیں 
اُس نے ہنسنے کی بھی ترتیب، بنا رکھی ہے 

دل میں خواہش بھی لیے پھرتے ہو درویشی کی 
اور دُنیا سے محبت بھی بڑھا رکھی ہے 

اب مرے دل سے کوئی اور گزر سکتا نہیں 
یہ سڑک میں نے ترے نام لگا رکھی ہے 

اِس میں دُنیا نہیں، دنیائیں سما سکتی ہیں 
ہم نے پہلو میں جو تھوڑی سی جگہ رکھی ہے 

جو کسی آنکھ نے سوچا بھی نہیں ہے عامی 
ہم نے اُس خواب کی تعبیر بنا رکھی ہے

*************

یوں بھی بُھوک مٹا سکتا ہے 
بندہ مٹی کھا سکتا ہے 

اِک لقمے کی اُجرت کیا ہے 
اِک مزدور بتا سکتا ہے 

آہستہ سے پاؤں رکھنا 
کمرہ شور مچا سکتا ہے 

آنکھوں سے ہجرت کا مطلب 
ایک آنسو سمجھا سکتا ہے 

خوشبو جیسی لڑکی کا دل 
پُھولوں میں گبھرا سکتا ہے 

بیماروں سی شکل بناؤ 
کوئی دیکھنے آ سکتا ہے 

کس پتھر کے دل میں کیا ہے 
آئینہ بتلا سکتا ہے 

دریا پیچھے رہ سکتے ہیں 
پانی آگے جا سکتا ہے 

اِک سناٹا آوازوں میں 
خاموشی سے آ سکتا ہے 

جبرائیل سے آگے عامی 
عشق مسافر جا سکتا ہے

*************

ہمسائے میں شیطان بھی رہتا ہے خُدا بھی 
جنت بھی میسر ہے جہنم کی ہوا بھی 

یہ شہر تو لگتا ہے کباڑی کی دُکاں ہے 
کُھوٹا بھی اُسی مول میں بِکتا ہے کَھرا بھی 

اِس جسم کو بھی چاٹ گئی سانس کی دیمک 
میں نے اِسے دیکھا تھا کسی وقت ہرا بھی 

جیسے کبھی پہلے بھی میں گزرا ہوں یہاں سے 
مانوس ہے اِس رہ سے مری لغزش ِ پا بھی 

تم بھی تو کسی بات پہ راضی نہیں ہوتے 
تبدیل نہیں ہوتا مقدر کا لکھا بھی 

ممکن ہے میں اِس بار بھٹک جاؤں سفر میں 
اِس بار مرے ساتھ ہوا بھی ہے دِیا بھی 

یہ شہر فرشتوں سے بھرا رہتا ہے عامی 
اِس شہر پہ اِک خاص عنایت ہے، سزا بھی

*************

کوئی میرا امام تھا ہی نہیں 
میں کسی کا غلام تھا ہی نہیں 

تم کہاں سے یہ بُت اُٹھا لائے
اِس کہانی میں رام تھا ہی نہیں 

جس قدر شور ِ آب و گِل تھا یہاں
اُس قدر اہتمام تھا ہی نہیں 

اِس لیے سادھ لی تھی چُپ میں نے 
اِس سے بہتر کلام تھا ہی نہيں 

ہم نے اُس وقت بھی محبت کی 
جب محبت کا نام تھا ہی نہيں 

اِس لیے خاص کر دیا گیا عشق
عام لوگوں کا، کام تھا ہی نہیں

*************

میں سچ کہوں پس ِ دیوار جھوٹ بولتے ہیں 
مرے خلاف مرے یار جھوٹ بولتے ہیں 

ملی ہے جب سے اِنہیں بولنے کی آزادی 
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں 

میں مر چکا ہوں مجھے کیوں یقیں نہیں آتا 
تو کیا یہ میرے عزادار جھوٹ بولتے ہیں

یہ شہر ِعشق بہت جلد اُجڑنے والا ہے 
دُکان دار و خریدار جھوٹ بولتے ہیں 

بتا رہی ہے یہ تقریب ِ منبر و محراب 
کہ متقی و ریاکار جھوٹ بولتے ہیں 

میں سوچتاہوں کہ دم لیں تو میں اِنہیں ٹوکوں
مگر یہ لوگ لگاتار جھوٹ بولتے ہیں 

ہمارے شہر میں عامی منافقت ہے بہت
مکین کیا، در و دیوار جھوٹ بولتے ہیں

*************

عمران عامی

1 comment: