Muhammad Danish Hayat

نام: محمد دانش حیات
تاریخ پیدایش: 27 اپریل 1994
جائے پیدائش: ہڑپہ ساہیوال
موجودہ شہر: کراچی
شعری سفر: تقریباََ 2008 سے




کسی کے واسطے بہتا نہیں ہوں
میں قطرہ ہوں کوئی دریا نہیں ہوں

محبت دو مرے حصے کی مجھ کو
تری خیرات کا بھوکا نہیں ہوں

مری آنکھوں نے تجھ سے جھوٹ بولا
قسم لے لو کہ میں پیتا نہیں ہوں

میں بادل ہوں مگر خود غرض بادل
کسی صحراؤں پر برسا نہیں ہوں

میں مٹی اوڑھ کے سو جاؤں لیکن
کہیں گے لوگ میں مرتا نہیں ہوں

کسی کے ساتھ میں روتا نہیں ہوں
کسی کے ساتھ میں ہنستا نہیں ہوں

گھماؤبے دھیانی میں جسے تم
تمہارے ہاتھ کا گہنا نہیں ہوں

میں کیسے ختم ہو جاؤں پیارے
کہانی یا کوئی قصہ نہیں ہوں

نکلتا ہوں تری جانب تو لیکن
تری دہلیز تک آتا نہیں ہوں

میں لمبی تان کر سویا ہوا تھا
شبِ ہجراں میں جاگا نہیں ہوں 

مجھے کیوں ڈھونڈتے پھرتے ہو ناحق
میں اب تک شہر میں آیا نہیں ہوں

محبت سے نکل آیا ہوں لیکن
ازیت سے ابھی نکلا نہیں ہوں

ترے ہاتھوں سے گر کر ٹوٹ جاؤں
میں پتھر ہوں کوئی کوزہ نہیں

کسی کے دل سے میں اترا نہیں ہوں 
کسی کے دل پہ میں چھایا نہیں ہوں

تجلی طور پر دیکھی تھی میں نے
میں اب تک ہوش میں آیا نہیں ہوں

میں کیسے رقص فرماؤں گا دانشؔ
ابھی تک وجد میں آیا نہیں ہوں

*************

تھی سوچ بھی نئی نئی، تھے زاویے عجیب سے
کہ اس عجیب شخص کے تھے فلسفے عجیب سے

جفا کرو،خطا کرو، خفا کرو، دفع کرو
وہ بے خودی میں دے ہا تھا مشورے عجیب سے

عجب عجب سی چائے تھی، عجب عجب مزاج تھا
عجب عجب سے شخصکے تھے ذائقے عجیب سے

جو جانتے تھے مر گئے، گنوار تھے وہ بچ گئے
کہ شہرِ آگہی کے سب تھے راستے عجیب سے

دلوں پہ حکمرانیاں، تباہ کی نشانیاں 
کہ اس حسین شخص کے تھے معرکے عجیب سے

وہ خود بھی ترش ترش تھا، جو کھا رہا تھا املیاں
مری زباں پہ آرہے تھے، ذائقے عجیب سے

وہ اجنبی سا شہر تھا، وہ اجنبی سے لوگ تھے
وہ اس لئے بھی یاد ہیں کہ نام تھے عجیب سے

میں پہن کر ابھر رہا تھا کاغزی سا پیرہن
وہ بُن رہا تھا ڈائری پہ دائرے عجیب سے

زباں سے کچھ نہ بولتا، وہ آنکھ آنکھ بولتا 
تھے اسعجیب شخص کے مکالمے عجیب سے

لہو لہو ہو آنکھ میں، ہوں پیر پیر آبلے
تھے سلسلئہِ عشق کے مجاہدے عجیب سے

کہیں بچھڑ نہجائے وہ، کہیں بکھر نہ جاؤں میں
یہ میرے دل میں آرہے تھے وسوسے عجیب سے

وہ اس قدر حسین ہے، وہ کس لئے اداس ہے
یہ سارا شہر کر رہا تھا تزکرے عجیب سے

یہ دشت دشت گھومنا، یہ خاک خاک چھاننا
مجھے حیاتؔ راس ہیں یہ مشغلے عجیب سے

*************

ہماری سمت وہ کب دیکھتے ہیں 
جو طوطے تیری بولی بولتے ہیں

عدو کا شکریہ کیسے ادا ہو
وہ میرے بارے اتنا سوچتے ہیں

جو تیرا راہ میں بیٹھے ہوئے ہیں
تجھے تجھ سے زیادہ جانتے ہیں

خسارہ ذہن میں لاتے نہیں وہ
جو ہر اک بات تیری مانتے ہیں

میں اس انجان رستے پر کھڑا ہوں 
کہ جس کے چار جانب راستے ہیں

*************

حرف سارے کماں میں رکھتے ہیں
تیر ہم بھی زباں میں رکھتے ہیں

اک دیا ذہن میں ضروری ہے
روشنی اس مکاں میں رکھتے ہیں

میں کسی داستاں کا حصہ ہوں 
وہ کسی داستاں میں رکھتے ہیں

دشت کا زکر جب بھی ہوتا ہے
اک جلن سی زباں میں رکھتے ہیں

جب بھی دکھ بڑھ گئے زمانے کے 
سر کو آغوشِ ماں میں رکھتے ہیں

*************

ٹوٹ کر رویا تھا پہلے مسکرایا بعد میں
پہلے سر پر زخم ابھرا سنگ آیا بعد میں 

میں نے تو اس سفر کا آغاز ہی الٹا کیا
پہلے تیرا ہجر جھیلا، وصل پایا بعد میں

یہ محبت کی کرامت ہے کہ میرے ہاتھ پر 
پہلے تیرا نقش ابھرا نام آیا بعد میں

اک حسیں تھا پہلے اس نے لوگ پاگل کردئیے
مقتلوں تک شہر سارا کھینچ لایا بعد میں

اس طرح سے ہار میں نے مان لی تھی دوستو
پہلے میں نے سر کٹایا، سر جھکایا بعد میں

اس کو جب دیکھا تو دانشؔ کیا خبر کہ بزم میں
کون آیا سب سے پہلے کون آیا بعد میں

*************

دانش حیات

No comments:

Post a Comment