نام: یاور عظیم
تاریخِ پیدایش: 1984-01-11
شہر کانام: خانپور کٹورہ
شعری سفر : 2004ء میں شعر کہنا شروع کیا
شعروں کا انتخاب "بیت بازی" کے نام سے ترتیب دیا ، 2009ء میں رُمیل ہاؤس آف پبلیکیشنز راولپنڈی سے شائع ہُوا۔
فصلِ آواز لہلہا یونہی
میں رکھوں گا تجھے ہرا یونہی
خواب کی روشنی میں چلتا جا
دُور تک دیکھتا ہُوا یونہی
کیا خبر ہے مری اُداسی پر
مسکراتا رہے خدا یونہی
سورگ اور نرکھ ہیں کہیں موجود
یا بھٹکتی ہے آتما یونہی
عشق کا امتحان تھا ورنہ
کوئی پانی میں ڈوبتا یونہی
*************
ہُنر جو آئے سمندر پہ پاؤں دھرنے کا
یہ سلسلہ نہ رہے ڈوبنے اُبھرنے کا
کسی صدا کو رکاوٹ نہیں سمجھتا ہوں
میں تیز گام کہیں پر نہیں ٹھہرنے کا
میں آخری ہوں چراغوں کے خانوادے سے
ہوائیں جشن منائیں گی میرے مرنے کا
پہاڑ جیسا اندھیرا مرا مقدر تھا
مجھے پتہ نہ ملا روشنی کے جھرنے کا
تُم آج رات مجھے اپنا جسم پہنا دو
تماشا دیکھ رہے ہو مرے ٹھٹھرنے کا
*************
وہ بھی دن تھے، ہرا بھرا تھا میں
چھاؤں کیا کیا بکھیرتا تھا میں
بارشوں سی حسین لڑکی کو
زرد لمحوں میں سوچتا تھا میں
شہرِ آواز تیرے بیچوں بیچ
خامشی کا مجسمہ تھا میں
پھر ترے لمس نے کیا روشن
کتنا تاریک ہو رہا تھا میں
میری آواز سُوکھنے لگی تھی
خشک سالی میں مُبتلا تھا میں
*************
غموں کی دُھوپ سے ڈرتا نہیں ہوں
میں کوئی موم کا پُتلا نہیں ہوں
نجانے صبر کی وہ شاخ کیا تھی
میں جس کا پھل ہوں اور میٹھا نہیں ہوں
میں پیوستہ ہوں شاخِ دوستاں سے
کوئی ٹوٹا ہُوا پتہ نہیں ہوں
میں بوڑھی چاندنی کا ہمسفر تھا
کنواری دُھوپ تک آیا نہیں ہوں
مری موجودگی اک مسئلہ ہے
میں یُوں موجود ہوں، گویا نہیں ہوں
*************
بس توجّہ ہی کی نہیں جاتی
خامشی کب سُنی نہیں جاتی
خواب کی نشریات آنے تک
آنکھ کی سنسنی نہیں جاتی
وقت کی کوکھ میں اندھیرا ہے
روشنی کیوں جنی نہیں جاتی
جب ہوائیں مرے موافق ہوں
مجھ سے پرواز کی نہیں جاتی
مامتا کے محل میں رہتا ہوں
میری شہزادگی نہیں جاتی
یہ محبت ہے زائد المیعاد
زہر لگتی ہے، کی نہیں جاتی
دُھوپ شرمندہ ہو گئی یاورؔ
پُھول کی تازگی نہیں جاتی
*************
یاور عظیم
No comments:
Post a Comment