Jeena Qureshi

نام: جینا قریشی
تاریخ پیدائش: 13 جون
جائے پیدائش: اسلام آباد
موجودہ شہر: اسلام آباد
شعری سفر: 2015 سے


عشق محبت گھاؤ صاحب
دل میں ایک الاؤ صاحب

پہلے مجھ کو نیندیں سونپو 
اور پھر خواب جگاؤ صاحب

من کے کالے جنگل بیلے 
عشق کی شمع لاؤ صاحب 

بھٹی میں اب ڈال دو جیون 
سانسیں اور پکاؤ صاحب

من کا پیتل سونا کر دو 
ھو کی آنچ بڑھاؤ صاحب

نیم شبی کے سناٹے میں 
روٹھا یار مناؤ صاحب 

عشق جنوں ہے کھیل نہیں 
پھر سوچ سمجھ کر آؤ صاحب 

نیند سے جاگی آنکھوں کو اب 
ایک دیا کر جاؤ صاحب

خواب نگر میں ملنے آؤ 
چاند سا مکھ دکھلاؤ صاحب

تن من میں اک جوت جگاؤ 
اور اک لمس بڑھاو صاحب

مانا عشق میں رسوائی ہے 
ماتھے داغ لگاؤ صاحب 

ہجر سے سارا وصل نکالو
کن کی بات سناؤ صاحب 

راہیں کوئی تکتا ہو گا 
شام ہوئی گھر جاؤ صاحب

جینا قریشی

*************

شکیبائی جو رنگ لائی ، مرے ہو کر رہو گے تم 
سنو اے میرے ہرجائی ، مرے ہو کر رہو گے تم 

چلو مانا دسمبر ہی جدا ہونے کا موسم ہے 
مگر اب جو بہار آئی ، مرے ہو کر رہو گے تم 

کسی پر دل کے آنے کے عجب ہی ڈھنگ ہوتے ہیں 
کبھی دل پر جو بن آئی ، مرے ہو کر رہو گے تم 

تڑپتا دیکھ کر مجھ کو ابھی لذت اٹھاتے ہو 
مرے اچھے تماشائی ، مرے ہو کر رہو گے تم 

یہ مانا میں نے پتھر ہو دھڑکتا دل نہیں رکھتے 
صدائے کن فکاں آئی ، مرے ہو کر رہو گے تم 

ابھی سانسوں کے گھنگرو میں تمہارا نام رقصاں ہے 
دھمالوں تک جو بات آئی ، مرے ہو کر رہو گے تم 

مجھے آتا ہے مصرعو ں میں کسی کو باندھنے کا فن 
غزل میں نے کوئی گائی ، مرے ہو کر رہو گے تم 
جینا قریشی

*************

دن بھر جان جلاتا سورج 
شام کو تھک سا جاتا ہو گا 
ہجر کی نم آلود ہوا پھر 
تم سے یوں ٹکراتی ہو گی 
..... ... یاد میری تو آتی ہو گی
یاروں کی محفل میں بیٹھے 
ہنستے ، بولتے ، کھیلتے ہو گے 
ہنستے ہنستے باتوں میں پھر 
یونہی چپ لگ جاتی ہو گی 
......... یاد میری تو آتی ہو گی
سگریٹ کو سلگاتے ہو گے 
گویا جان جلاتے ہو گے 
اور دھویں کے مرغولے میں 
صورت اک بن جاتی ہو گی 
.......... یاد میری تو آتی ہو گی
ہاتھ کسی کا تھامتے ہو گے 
اسکو اپنا مانتے ہو گے 
بھیگی آنکھوں والی لڑکی
ہرجائی کہہ جاتی ہو گی 
........ یاد میری تو آتی ہو گی
پورے چاند کی راتوں میں جب 
بے کل من گھبراتا ہو گا 
گھر سے باہر لاتا ہو گا 
چاندنی میرا سایہ بن کر 
رہ میں بچھ بچھ جاتی ہو گی 
.......... یاد میری تو آتی ہو گی
اشک تیرے جب بہتے ہوں گے 
تم سے کچھ تو کہتے ہوں گے 
دل بھی جھگڑا کرتا ہو گا 
اور گھٹن بڑھ جاتی ہو گی 
........ یاد میری تو آتی ہو گی
وصل کے جادو لمحوں میں جب 
من چاہے ساتھی نے اپنا 
سر کاندھے پر رکھا ہو گا 
ایک شبیہہ دھندلاتی ہو گی 
......... یاد میری تو آتی ہو گی
ترک تعلق کرنے پر بھی 
روح کہیں گھبراتی ہوگی
من کے بندی خانے میں 
زنجیر چھنک سی جاتی ہو گی 
.......... یاد میری تو آتی ہو گی
رات کو اکثر بچے تم سے 
ایک کہانی سنتے ہوں گے 
اور کہانی کے آخر میں 
شہزادی مر جاتی ہو گی 
............... یاد میری تو آتی ہو گی

جینا قریشی

*************

محبت کیا ہے یہ جاناں 
چلو تم کو بتاتی ہوں 
جہاں تک میں سمجھ پائی 
وہاں تک ہی بتاتی ہوں 
محبت آسمانوں سے اترتی ایک آیت ہے
میرے رب کی عنایت ہے 
کہیں لے جائے موسیٰ کو 
تجلی رب کی دکھلانے 
کہیں محبوب کو عرشوں پہ اپنے رب سے ملوانے 
کہیں سولی چڑھاتی ہے 
کسی منصور سرکش کو 
کہیں یہ بیٹھ کر روتی ہے پھر شبیر بے کس کو 
لگا کر آگ پانی میں 
ہوا میں زہر گھولے گی 
کرے گی رقص شعلوں پر 
مگر کب بھید کھولے گی 
کہیں یہ ایڑیاں رگڑے .... تو زم زم پھوٹ پڑتے ہیں 
نظر کر دے جو پتھر پر 
تو پتھر ٹوٹ سکتے ہیں 
کہیں یہ قیس ہوتی ہے 
کہیں فرہاد ہوتی ہے 
کہیں سر سبز رکھتی ہے 
کہیں برباد ہوتی ہے 
کہیں رانجھے کی قسمت میں لکھی اک ہیر ہوتی ہے 
یہ بس تحریر ہوتی ہے 
کہاں تقدیر ہوتی ہے ....؟
کہیں ایثار ہوتی ہے 
کہیں سرشار ہوتی ہے 
وہیں یہ جیت جاتی ہے 
جہاں یہ ہار ہوتی ہے
محبت دل کی دیواروں سے لپٹی کائی جیسی ہے 
محبت دل نشیں وادی میں اندھی کھائی جیسی ہے 
سنو .....!!
تم بھی محبت کو کہیں ہلکا نہیں لینا
اگر اپنی پہ آ جائے 
تمہیں صحرا نشیں کر دے 
اٹھا کر آسمانوں سے تمہیں پل میں زمیں کر دے 
کسی کو دان دیتی ہے 
کسی کی جان لیتی ہے
اگر کندن میں ڈھالے تو 
سمجھ لینا یہ خالص ہے 
من و تو ناں بھلاے جو 
تو پھر سمجھو کہ ناقص ہے 
دلِ برباد یہ روشن تمہارا کرکے چھوڑے گی 
لکھے گی درد ماتھے پر 
ستارا کر کے چھوڑے گی

جینا قریشی

*************

میری مٹی کو دے رتبہ اسے تو کیمیا کر دے 
ابھی تو عین پر ہوں میں ، مجھے تو انتہا کر دے

چڑھاؤں کوئی نذرانہ کہاں اوقات میری ہے 
مری پلکوں سے آنسو چن ، کوئی جود و سخا کر دے

مجھے جو ہجر بخشا ہے تو کچھ توفیق بھی دے دے 
تماشا ہی نہ ہو جاؤں مجھے صبر و رضا کر دے 

ارادت مند ہوں تیری تری چوکھٹ پہ بیٹھی ہوں 
دکھا جلوہ مجھے مرشد مری ہستی فنا کر دے 

ملے لذت جبیں کو پھر جو میں مٹی پہ سررکھ دوں 
دیا جو درد ہے تو نے تو ہی اس کی دوا کر دے 

ابھی تو بارگاہ -عشق میں سولی بھی چڑھنا ہے 
لگا مجھ پر کوئی فتویٰ مجھے مجھ سے جدا کر دے

جینا قریشی

*************


4 comments: