Anita Yaqoob

نام:انیتا یعقوب
تاریخِ پیدایش:2 اگست
جائے پیدائش:کراچی
موجودہ شہر کانام: کراچی
شعری سفر: 2014 



کہاں وہ اور کسی ذات کی تلاش میں ہے
ابھی تو آدمی خود اپنی ہی تلاش میں ہے

کئی دنوں سے ہے بَس تُو مِرے خیالوں میں
کئی دنوں سے مِرا دل تری تلاش میں ہے

یہ بات کیسے کہوں؟ اک بُجھے ستارے سے
اندھیرے کے لیے خود روشنی تلاش میں ہے

ابھی تو رات کا پہلا پہَر نہیں گذرا
پھر آسمان ابھی کس نئی تلاش میں ہے؟

ترے بغیر  بَھلا کس طرح سفر کروں مَیں 
کبھی ہَوا کبھی مشعل مِری تلاش میں ہے

 انیتا یعقوب 

*************

خداوندا 
یہ شب بھر کیا تماشا ہے
مری لبریز آنکھوں میں
کناروں سے لپٹتے اشک کی صو رت
کئی محجوب روحوں کے ہیولے 
سر پٹختے ہین 
ہوائے شب سے بہتے پانیوں میں
آگ لگتی ہے
ستارے ڈوبتے ہیں 
آسماں سے پے بہ پے اس خاک پر
شب بھر قیامت سی اترتی ہے
دکھائی دیتے ہیں روندے ہوئے شبنم نما چہرے
بلا کا شور اٹھتا ہے
سمندر کے تلاطم سے
عجب بجلی کڑکتی ہے زمیں پر
کہیں پاتال کے اندر
سمندر میں سمندر کا بدن غرقاب ہوتا ہے
بلائے موج تندوتیز سے سب کشتیوں کے بادباں پھر ٹوٹ جاتے ہیں 
ہراساں اور پریشاں 
دوڑتے پھرتے ہیں انساں 
سحر تک تیرتی پھرتی ہیں لاشیں 
دور تک پھیلے ہوئےبے انت ساگر میں 
کہیں پاتال میں ڈوبی صدائیں سرسراتی ہیں
مگر کوئ کنارا ہی نہیں ملتا
ترے بندے خداوندا
سسکتے ہیں 
سہارا ہی نہیں ملتا

انیتا یعقوب

*************

کیوں جُپ ہیں ؟ اہتمام سے کجھ بولیے حضور !
دھڑکن تھمی ہے شام سے کچھ بولیے حضور !

کجھ بولیے حضور فقط میرے واسطے
جاہے ' خود اپنے کام سے کچھ بولیے حضور !

خوش بُو چُرا رہی ہے گل ِ یاسمین کی !
اس بادِ خوش خرام سے کچھ بولیے حضور !

اس بزم شب میں آپ ہی تو خاص ِ بزم ہیں 
ہم لوگ تو ہیں عام سے کچھ بولیے حضور !

آنکھوں میں اشک پانو میں زنجیر پڑ گئی
گھبرا رہے ہیں شام سے کچھ بولیے حضور !

انیتا یعقوب 

*************

درد میں ڈوبا ہوا دن 
(نثری نظم)

زمستانوں سے ھوا 
کروٹیں لیتی اترتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سمندروں کو پھلانگتی ، اڑتی ہوئ 
دشت وصحرا میں کروٹیں لیتی ہوئ
وحشت زدہ بال کھولے ہوئے 
بادلوں کی سیاہ دھاریوں سے الجھتی ہوئی
آنکھیں ملتی ہوئی خستہ دل 
ساحل ِ وقت پر نیر بہانے آئی ہے 
دور سرخ پنکھوں والے بگلوں کے غول 
کہیں بادلوں کی فرغل میں چھپ رہے ہیں 
ہوا اپنی مسافت کی کہانی ریت پر تحریر کرتی جا رہی ہے 
سمے سے پرے دکھوں کے ہزاروں رنگ 
فلک کی نیلمیں پہنائیوں سے یوں ابھرتے ہیں 
جیسے بکھرا ہوا وجود ، ٹوٹے ہوئے خواب 
یا کسی زلزلے میں برباد شہر کا ملبہ 
ایک سلگتی تنہائ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور ایک درد میں ڈوبا ہوا دن 
تھوڑی دیر میں پھر نکل پڑے گا 
ہاتھوں پر زخموں کا طشت اٹھائے
گلی گلی قریہ قریہ بانٹنے کے لئے

انیتایعقوب

*************

اک شخص میرے خواب میں آتا ہے اِن دنوں
اک گیت چاہتوں کا سناتا ہے اِن دنوں

ہاتھوں میں میرے رکھ کے کوئی سُرمئی سی شام
اک چاند بام دل پہ سجاتا ہے اِن دنوں

ویران دل میں اب تو بسیرا اسی کا ہے
اک بزمِ دل میں کوئی بساتا ہے اِن دنوں

کٹتا ہے ایک خواب کی خواہش میں میرا دن
وہ خواب جس میں تو نظر آتا ہے اِن دنوں

انیتا یعقوب

*************

کاش ہم خوشبو کے دیوانوں کو بھی ملتے گلاب
آپ کے ہونٹوں پہ کھلتے اور ہم چنتے گلاب

پہلے بھی خوشبو تھی ان میں ہاں مگر اتنی نہیں
آپ کے ہاتھوں کو چھو کر اور بھی مہکے گلاب

آپ کو سوچا ہوئے ہم حسن گل سے آشنا 
کیا غزل کا در کھلا یک دم کھلے اتنے گلاب

آپ تھوڑا رک سکیں گر وقت تو ٹھہرا نہیں
کب کِھلیں گے اِس صدی میں جانیے پھر سے گلاب 

ہم فلک پہ جا کے دیکھیں گے کبھی اک روز تو
کس طرح چمکے ستارہ، کس طرح مہکے گلاب

کس نگر سے ہو کے آئے ، کس کے دست ِ ناز نے 
نقرئ لیروں کے آنچل پر حسیں ٹانکے گلاب

انیتا یعقوب

*************

1 comment: