Adnan Asar

نام:عدنان اثر
تاریخِ پیدایش:02,09,1992
جائے پیدائش: مانسہرہ
شہر کانام: اسلام آباد




یوں بھی کمال کیجیے اک گھر بنائیے
 دیوار و در کی قید سے باہر بنائیے

 اب وہ چلا گیا ہے تو دِن رات بیٹھ کر 
 اُس کی مِثال کا کوئی پیکر بنائیے

 ایسا بھی کُچھ تو ہو کہ جو دل کو لُبھا سکے
 آنکھیں جو چاہتی ہیں وہ منظر بنائیے

 پھر ہاتھ بھی نہ آئےگی یہ مختصر حیات
 جتنا بھی ہو سکے ، اسے بہتر بنائیے

 وہ مِل نہیں رہا ہمیں کوشش کے باوجود 
 کِس طرح خود کو زیست کا خُوگر بنائیے

 جو شے بھی آپ سے کبھی بنتی نہیں اثر 
 خواب و خیال میں اُسے اکثر بنائیے

عدنان اثر

*************

اَب آ بھی جاؤ کہ شام و سَحر کُھلے ہوئے ہیں 
 تُمہارے واسطے آنکھوں کے در کُھلے ہوئے ہیں 

 وہ ماہتاب ابھی تک نہیں کھلا ہم پر
 اَبھی تو رنگ بہت مُختصر کھُلے ہوئے ہیں 

 کُھلے ہوئے ہیں جہانوں کے در اُسی جانب
 تَرے جمال کے دفتر جِدھر کُھلے ہوئے ہیں

 تُو میرے سامنے آیا تو ایسے لگتا ھے 
 ہزاروں آئینے پیش ِ نظر کُھلے ہوئے ہیں 

 اُنہیں سمجھنے میں یہ مسئلہ بھی ہے درپیش 
 وہ لوگ مُجھ پہ بہت مختصر کُھلے ہوئے ہیں

 اٹھا رہا ہوں میں لذت سفر کی ہر لمحہ
 مرے وجود پہ کتنے سفر کھلے ہوئے ہیں

 سزائیں سہنے سے ڈرتے نہیں ہیں اہلِ جنوں
 ہماری جان پہ وحشت کے در کھلے ہوئے ہیں

 قفس سے دیکھ رہے ہیں ، بس آسماں عدنان
 پرند قید ہیں اور بال و پر کُھلے ہوئے ہیں 

 وہ میرے پاس بھی ہے اور پاس ہے بھی نہیں
 تضاد کیسے یہ عدنان اثر کُھلے ہوئے ہیں

عدنان اثر

*************

کہیں پہ گرتے ہوئے اور کہیں سنبھلتے ہوئے 
میں اُس کے شہر کو جاؤں گا یوں ہی چلتے ہوئے

 خدا کرے وہ کِسی روز مُجھ کو مِل جائے 
 کِسی گلی میں بڑے چین سے ٹہلتے ہوئے 

 میں انکے نور میں پہنچا غریب خانے تک 
 کسی نے پھینک دیے تھے چراغ جلتے ہوئے

 یہ میں نہیں ہوں کوئی مجھ سا ہے میرے اندر 
 یہ آئینہ جو دِکھاتا ہے رخ بدلتے ہوئے

 ہمارے دل میں دَبا عشق کُھل گیا آخر
 کِسی نے دیکھ لیا تھا دُھواں نکلتے ہوئے

 جو مدتوں سے سرِ طاق جل رہا تھا اثر 
 پھر اُس چراغ کو دیکھا دُھواں اگلتے ہوئے

عدنان اثر

*************

سو جہاں اور بھی ہیں وسعتِ افلاک میں گم 
 اور تو رہتا ہے ہر وقت یہاں خاک میں گم 

 ڈوبے رہتے ہیں تری یاد میں ہم بھی ایسے 
 کوزہ گر جیسے ہمہ وقت رہے چاک میں گم

 اُٹھنے والا ہے زمیں سے کِسی محشر کا غبا ر
 ہونے والے ہیں ستارے خس و خاشاک میں گم

 اس کو دیکھوں گا میاں جب ہی تھمے گا طوفان 
 ہے ابھی چاند مرے دیدہِ نم ناک میں گم

 رقص کرتے ہوئے درویش کو معلوم ہے سب 
 کِتنے ادوار ہیں اڑتی ہوئی اِس خاک میں گم

 مسئلے زیست کو درپیش زمیں پر ہیں اثر
 ہم ہوئے جاتے ہیں اِس حیرت ِ افلاک میں گم

عدنان اثر

*************

سارا قصہ تمام کر گزروں 
 زِندگی تیرے نام کر گزروں

 طاق پر ٹِمٹِما رہا ہے چراغ 
 آخری ایک شام کر گزروں

 جا کے بس جاؤں میں دِلوں میں کہیں 
 اپنا ایسا مقام کر گُزروں

 روند کر رکھ دوں میں جوانی کو؟ 
 زندگی نذرِ جام کر گزروں؟

 میں الٹ دون تمام تدبیری
 اس کو اپنا غلام کر گزروں

 تیری تعمیر کے پس ِ پردہ
 اپنا میں انہدام کر گزروں

 کیا پتا پھول کھل رہے ہوں وہاں 
 اک نظر سُوئے بام کر گزروں

عدنان اثر

*************

No comments:

Post a Comment