نام : غلام مجتبیٰ یاسر ہاشمی
تاریخ پیدائش: 12نومبر 1986ء
جائے پیدائش: حیدرآباد ، پاکستان
موجودہ شہر: حیدرآباد، پاکستان
شعری سفر: پہلی مکمل غزل 2012ءمیں لکھی ، جو 2سال بعد 2014ءمیں حیدرآباد کے معروف شاعر سالک عزیزی مرحوم کے شاگرد رشید جناب افتخار احمد انجم صاحب کی خدمت میں اصلاح کیلئے پیش کی ۔
رنج و غم کو بھلا کے پینی ہے
ہر گھڑی مسکرا کے پینی ہے
آگئے یاد ان کے لطف و کرم
اشک آنکھوں میں لا کے پینی ہے
جام و مینا کی فکر ہو کیونکر
ان سے نظریں ملا کے پینی ہے
روشنی مجھ کو راس کب آئی
لو دیے کی بجھا کے پینی ہے
جھیلنے ہیں ستم جہاں بھر کے
ضبط کو آزما کے پینی ہے
ہے عجب تحفہ پارسائی کا
خلد میں مجھ کو جا کے پینی ہے
رُت ہے آئی بہار کی یاسر
گھر کو اپنے سجا کے پینی ہے
*************
تمام وعدوں کو یکسر بھلا دیا ہوگا
مرے خطوں کو بھی تم نے جلا دیا ہوگا
مجھے ہے اتنا یقیں میری یاد نے اکثر
اندھیری راتوں میں تم کو رلا دیا ہوگا
تمہیں خبر ہی نہیں دل پہ کیا گزرتی ہے
مری ہنسی نے غموں کو چھپا دیا ہوگا
کسے ہے فکر دعا میں اثر بھی ہے کہ نہیں
فقط تمہارے لیے ہاتھ اٹھا دیا ہوگا
چراغ یادوں کے ہوں یا امید کی شمعیں
کسی کی آہ نے سب کچھ بجھا دیا ہوگا
گلہ نصیب کا کیوں ہو یہ اپنی عادت ہے
کہ جب بھی ، جو بھی ، ملا سب گنوا دیا ہوگا
کسے گناؤں میں احسانِ دوستاں یاسر
یہاں تو زخم سبھی نے نیا دیا ہوگا
*************
مرے دکھوں میں ، مری ہر خوشی میں شامل ہے
کچھ اس طرح تو مری زندگی میں شامل ہے
وہ مسکرانا مجھے دیکھ کر سرِ محفل
شگفتگی بھی تری سادگی میں شامل ہے
حیا سے اپنا وہ چہرہ چھپانا آنچل میں
نرالی بات تری ان کہی میں شامل ہے
گزر رہے ہیں شب و روز تیری یادوں میں
تو ہر جنوں میں مرے ، بے خودی میں شامل ہے
خدا سے آٹھوں پہر میں نے تجھ کو ہی مانگا
تو ہر دعا میں ہر اک بندگی میں شامل ہے
ہے وصلِ یار کی حسرت تو انتظار اے دل
کہ انتظار بھی اس عاشقی میں شامل ہے
ہے فکر کیوں تجھے ناراضگی کی اے یاسر
یہ اس کا پیار ہے جو برہمی میں شامل ہے
*************
ہر پل لیا ہے میں نے مزا انتظار کا
میں منتظر رہا ہوں سدا تیرے پیار کا
یوں گم ہوا ہوں تیری محبت میں جانِ جاں
ملتا نہیں ہے کوئی بھی رستہ فرار کا
چاہت پہ میری چھائی رہی ہر گھڑی خزاں
آیا نہیں ہے ایک بھی لمحہ بہار کا
کارِ جہاں میں ہر گھڑی مصروف تو رہا
تجھ کو خیال آیا نہ اس دلفگار کا
حیرت ہے میری آہ و فغاں سن سکا نہ تو
شاہد جہاں یہ سارا ہے میری پکار کا
میخانہ بند جب سے ہوا شہر کا مرے
کوئی نہیں ٹھکانہ یہاں بادہ خوار کا
یاسؔر نے دیکھا غیر کے ہمراہ جب تجھے
تو خون ایک پل میں ہوا اعتبار کا
*************
الفت میں تیری ایسے فنا ہو گیا ہوں میں
خود اپنے آپ سے بھی جدا ہوگیا ہوں میں
دنیا پکارتی ہے مجھے تیرے نام سے
میں خود یہ سوچتا ہوں کہ کیا ہوگیا ہوں میں
مت پوچھ حال کیا ہے ترے ہجر میں مرا
ہر ایک لمحہ وقفِ دعا ہوگیا ہوں میں
کیوں میں کسی سے درد کا درماں طلب کروں
اپنے جنوں کی آپ دوا ہوگیا ہوں میں
وہ مسکرا کے دیکھنا محفل میں غیر کی
ہر اک ادا پہ تیری فدا ہو گیا ہوں میں
چاہوں بھی تو نہ جاسکوں کوچے میں یار کے
کیوں اتنا دور میرے خدا ہو گیا ہوں میں
یاسر مرے وجود میں یوں بس گیا ہے وہ
لگتا ہے جیسے اُس کی صدا ہوگیا ہوں میں
*************
غلام مجتبیٰ یاسر ہاشمی
Thanks a lot Zain Shakeel Sahb ...
ReplyDeleteWah je...
ReplyDeleteMaa shaa Allah..
Kia baat hai janab. :-)
Wah je...
ReplyDeleteMaa shaa Allah..
Kia baat hai janab. :-)
شکریہ جناب ۔۔۔ پسندیدگی پر تہہ دل سے ممنون ہوں ۔۔۔
Delete