نام: ڈاکٹر وقار خان
تاریخ پیدائش : 4 اپریل 94
جائے پیدائش : کوٹ سلطان لیہ
موجودہ شہر : ملتان
آغاز شاعری : 2007
اعزازات : اقبال ایوارڈ، جون ایلیا ایوارڈ ، داغ دہلوی ایوارڈ ، غالب ایوارڈ سمیت شاعری میں 26 ایوارڈز جو مختلف سرکاری و غیر سرکاری اداروں نے دیے ۔
خطا قبول نہیں ہے تو خود خطا کر دیکھ ،
یا ایک بار برابر میں میرے آ کر دیکھ ،
یہ میرا صبر ہے ، یہ مجھ پِسے ہوئے کا صبر ،
خدائے قہر تُو آ قہر آزما کر دیکھ ،
غرور وار دیا میں نے فی سبیل العشق ،
اے عشق تُو بھی تو اب تھوٖڑا حوصلہ کر دیکھ ،
میں دل کا اچھا ہوں لیکن ذرا سا ہوں گستاخ ،
تُو ایک بار مجھے سینے سے لگا کر دیکھ ،
تُو آزما تو چکا ہے یہ سارے مکر و فریب ،
بس اب اذانِ محبت زباں پہ لا کر دیکھ ،
وہ کچھ بتانے سے شاید جھجکتی ہو گی وقار،
بس ایک بار اُسے نام سے بلا کر دیکھ ۔
*************
سدرۃ الوصل کے سائے کا طلبگار ہوں میں ،
تپشِ ہجر میں برسوں سے گرفتار ہوں میں ،
جا کسی اور کو جا دھمکیاں دے مارنے کی ،
جب سے میں پیدا ہوا ، تب سے سرِ دار ہوں میں ،
میرا پیغام بھلا تیغ کہاں روکے گی ؟َ
حاکم ِ وقت کو بتلائو قلم کار ہوں میں ،
میں نے تو رب کو بھی پوجا ہے اور اُس یار کو بھی ،
واعظا تُو ہی بتا کِس کا گنہگار ہوں میں ۔
*************
"وہ عورت تھی"
خلا کی مُشکلات اپنی جگہ قائم تھیں ، اور دنیا،
اُجڑتی، بھُربھری ، بنجر زمینوں کی نشانی تھی،
ستارے سُرخ تھے، اور چاند سورج پر اندھیروں کا بسیرا تھا،
درختوں پر پرندوں کی جگہ ویرانیوں کے گھونسلے ہوتے،
زمیں کی کوک میں بس تھور تھا، اور خار اُگتے تھے،
ہوا کو سانس لینے میں بہت دُشواریاں ہوتیں،
تو پھر اُس نور والے نے کوئی لوحِ انارہ بھیج دی شاید،
اندھیرے روشنی پہ کس طرح ایمان لے آئے،
بلائیں کس طرح پریوں کی صورت میں چلی آئیں،
یہ کِس ” نورل ثویبا ” کی خدا تخلیق کر بیٹھا ،
یہ نرمی ، دلبری ، شرم و حیا تخلیق کر بیٹھا،
وہ ” نورل ” وہ ” ثویبا ” جس کی خاطر آسماں سے رنگ اُترے تھے،
وہ جس کے دَم سے دنیا پر نزاکت کا وجود آیا،
خدائے خلق نے ” نورل ” سے پہلے ہی ہوس تخلیق کر دی تھی،
نزاکت تک ہوس کی دسترس تخلیق کر دی تھی،
ہزاروں سال بیتے ہیں مگر فطرت نہیں بدلی،
نگاہیں اب بھی بھوکی ہیں کہ جیسے کھا ہی جائیں گی،
ہوس زادوں نے کیسے نور سے منہ پر ملی کالک،
ہر اِک رشتہ ضرورت کے مطابق کس لیے بدلا،
ہوس زادو۔۔۔ بدن خورہ۔۔۔۔ ذرا سی شرم فرماؤ ،
وہ ” نورل ” وہ ” ثویبا ” زندگی کا استعارہ تھی ،
کبھی حَوّا ، کبھی مریم، کبھی لوحِ انارہ تھی،
وہ ” عورت ” تھی ۔۔۔۔۔
*************
"گواہی "
میں محبت کے ستاروں سے نکلتا ہوا نور ،
حق و ناحق کے لبادوں میں چُھپا ایک شعور ،
میرے ہی دم سے ہوا مسجد و مندر کا ظہور ،
میں مسلمان و برہمن کے ارادوں کا فتور ،
میں حیا زادی و خوش نین کے ہونٹوں کا سرور ،
کسی مجبور طوائف کی نگاہوں کا قصور ،
میری خواہش تھی کہ میں خود ہی زمیں پر جائوں ،
اور زمیں زاد کا خود جا کے میں انجام کروں ،
وہ زمیں زاد کہ احسان فراموش ہے جو ،
وہ زمیں زاد ، زنا زاد ، انا زاد ہے جو ،
وہ زمیں زاد کہ جو خود ہی زمیں پر اترا ،
اور زمیں وہ جو وفا دار نہیں ہو سکتی ،
وہ زمیں جس پہ کئی خون کے الزام لگے ،
وہ زمیں جس نے یہاں دیکھے ہیں کٹتے ہوئے سر ،
وہ زمیں دیتی رہی ہے جو گناہوں کو پناہ ،
وہ زمیں جس نے چھپائے ہیں کئی راز و نیاز ،
سازشیں ہوتی رہیں جس پہ محبت کے خلاف ،
اور وہ چُپ ہے اگلتی ہی نہیں ایک بھی لفظ ،
مسئلہ یہ ہے کہ اب کس سے گواہی مانگوں۔
*************
یہ دنیا داری بھی کتنی عجیب شے ہے میاں
خدا کو یاد کیا جاتا ہے مفاد کے وقت
یہ میرے شعر ہمیشہ ہوئے نظر انداز
بس اک غرور بھری خامشی تھی داد کے وقت
تجھے یہ لگتا ہے کہ میرا پیار جھوٹا ہے ؟
خدا بھی یاد نہیں ہوتا تیری یاد کے وقت
بس ایک خون میرے سر پہ ہو چکا تھا سوار
تمیزِ مشرک و مومن نہ تھی جہاد کے وقت
ہمارا پیار تو ہونا تھا شک کی نذر وقار
کہ رہ گیا تھا خلاء کوئی اعتماد کے وقت
*************
ڈاکٹر وقار خان
Bhut khub zberdst
ReplyDeleteBhut khub zberdst
ReplyDelete