Nazaar Hussain Naaz

نام: نذر حُسین ناز
تاریخِ پیدایش: 5 مئی 1985
جائے پیدائش: چکوال
شہر کانام: چکوال
شعری سفر : 2015 سے باقاعدہ شعر کہنا شروع کیا۔


میں عام آدمی ہوں مرے عام عام دکھ
لیکن مجھے عزیز ہیں میرے تمام دکھ

دنیا سے اختلاف مرا اس لیے رہا
میرا مزاج تلخ ہے ، میرا کلام دکھ

کل رات میرے خواب کا منظر عجیب تھا
جھولی میں بھر کے لے گیا ماہِ تمام دکھ

رکھا ہوا ہے شام کے ماتھے پہ ایک چاند
زیرِ نگاہ درد ہے ، بالائے بام دکھ

اب ڈالنا پڑے گا مجھے دل میں اک شگاف
کرنا تو ہے فرار تِرا بے لگام دکھ

اے ناز اس دیار میں تھوڑی سی احتیاط
رکھا ہے شہرِیار نے خوشیوں کا نام دکھ


*************

زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس
چاک پر کوزہ رکھوں ، خاک بناؤں واپس

وقت کا ہاتھ پکڑنے کی شرارت کر کے
اپنے ماضی کی طرف بھاگتا جاؤں واپس

دیکھ میں گردشِ ایام اٹھا لایا ہوں
اب بتا کون سے لمحے کو بلاؤں واپس

یہ زمیں گھومتی رہتی ہے فقط ایک ہی سمت
تو جو کہہ دے تو اسے آج گھماؤں واپس

تھا ترا حکم سو جنت سے زمیں پر آیا
ہو چکا تیرا تماشا تو میں جاؤں واپس


*************

رشتے بھی اب ایسے رکھے جاتے ہیں
جیسے میلے کپڑے رکھے جاتے ہیں

میں نے اُس میں اپنا بچپن پھینکا تھا
جس گُلک میں پیسے رکھے جاتے ہیں

آنکھوں میں جب نیند اترنے لگتی ہے
کب ترتیب میں سپنے رکھے جاتے ہیں

بچپن میں هم اکثر سوچا کرتے تھے
چاند پہ کیسے چرخے رکھے جاتے ہیں

ہم لوگوں کو سچ کہنے کی عادت ہے
اسی لیے تو پیچھے رکھے جاتے ہیں

ناز ہمیں وہ ایسے رکھ کر بھول گیا
جیسے گھر میں سِکے رکھے جاتے ہیں


*************

سورج رستہ بھول گیا تھا

سورج رستہ بھول گیا تھا
میں نے اس کی انگلی تھامی اس کو اپنے گھر لے آیا
جانے کتنے دن سے یونہی بھوکا پیاسا گھوم رہا تھا
کھانا کھا کر ، اور سستا کر بولا مجھ سے  آؤ دشت نوردی کر لیں
ہم دونوں خاموشی اوڑھے میرے گھر سے باہر نکلے
دروازے پہ چاند کھڑا تھا 
پیلا پیلا دبلا پتلا ، بیماری میں لپٹا چاند
جانے کتنی راتوں سے وہ جاگ رہا تھا
آنکھوں سے سرخی کی چادر جھانک رہی تھی
نیند اُسے اب ہانک رہی تھی 
چاند سے تھوڑی باتیں کر کے آگے آئے
رستے میں کچھ ریت کے ذرے آگ جلا کر سینک رہے تھے
ہم نے ان کو گیت سنائے
ہم تھوڑا سا آگے آئے
چلتے چلتے اک ٹیلے پہ آ نکلے ہم
پیاس کی شدت کا احساس ہوا تو سورج بولا "پانی"
دشت کے پار اک جنگل ہے اور اس جنگل کی دوسری جانب
اک دریا بھی بہتا ہے
پیاس کے مارے ہم دونوں دریا پہ پہنچے
اپنی اپنی پیاس بجھائی
دریا سے کچھ باتیں بھی کیں
کافی ساری باتیں تھیں میں بھول گیا ہوں
خیر کہاں تھے ؟ ہاں ! دریا پر
ہم دونوں نے پیاس بجھائی 
وقت کی باگیں جلدی جلدی کھینچی ہم نے
بھاگے بھاگے واپس آئے
گھر پہنچے تو صبح کا تارا دروازے پہ پہرے دار بنا بیٹھا تھا
ہاتھوں میں تلوار اٹھائے
سورج لینے آیا تھا

حالانکہ یہ ساری باتیں لا یعنی ہیں
لیکن کیا ہے۔ اک مدت سے میں تنہائی کے زنداں میں قید پڑا ہوں
اک کمرے کی چار دیواری کے اندر ہی
جانے کتنے سال سمے سے اپنی سانسوں کی مدھم آوازیں سنتا
 رفتہ رفتہ اپنا جیون کھینچ رہا ہوں
مدت گزری ان آنکھوں نے کوئی بھی انسان نہ دیکھا
آئینہ بھی کب دیکھا تھا یاد نہیں ہے 
مجھ کو میرے چہرے کے سب خال و خد بھی بھول گئے ہیں
جانے کتنے ہی سالوں سے میں نے خود سے بات نہیں کی
هونٹ تکلم بھول گئے تھے
گاہے گاہے سناٹے میں چیخ کے خود کو سن لیتا تھا
کان مرے انسانوں کی آواز کجا ، حیواںوں کو تَرَس چکے تھے
یارو ! آج تمہیں دیکھا تو  میرے دل میں خواہش جاگی
جی بھر کے میں باتیں کر لوں
میں نے نظم بہانہ کر کے 
تم سے کتنی باتیں کر لیں

*************

برگد سے کچھ باتیں 

شاید تم کو یاد ہو پیارے ، ، 
برسوں پہلے ہَم دونوں نے . . 
برگد كے اس پیڑ كے نیچے . . 
یادوں کو دفنایا تھا . . 
یاد ہے تم کو 
شام ڈھلی تھی . . 
موسم گم سم 
وقت رکا تھا . . 
خوشبو بھی دھیرے سے آ کر . . 
سب کچھ ہوتا دیکھ رہی تھی . . 
یاد ہے کوئل بول رہی تھی . . .
سات برس سے بعد میں پرسوں 
اس رستے سے گزرا ہوں تو . . 
برگد مجھ سے پوچھ رہا تھا . . 
" لوٹ آئے ہو ؟ ؟ " 
" یا پِھر رستہ بھول گئے ہو " 
میں خاموش رہا تو بولا . . 
اچھا اس کو ڈھونڈ رہے ہو . . 
اچھا ہے اب آئے ہو تو سنتے جاؤ . . 
سات برس سے ہر ہر لمحے 
اس نے تیرا نام لیا ہے
پل پل تم کو یاد کیا ہے . . 
اس نے اپنے خواب اور سپنے . . 
سب کچھ تم کو سونپ دیا ہے . 
( اپنا آپ بھی دان کیا ہے ) 
تم کو شاید علم نہیں ہے 
وہ تو شام ڈھلے کا سورج 
روز یہاں دفناتی تھی . . 
تیری باتیں مجھ سے کر كے 
ہنستی تھی ، مسکاتی تھی . 
پِھر یکدم چُپ ہو جاتی تھی . . 
جیسے ہنسنا بھول گئی ہو . .
لیکن چھوڑو ، تم بتلاؤ . . . 
اتنے برسوں بعد یہاں پر 
یادیں لینے آئے ہو 
یا پِھر وقت سے مہلت لے کر 
اس سے ملنے آئے ہو ؟ ؟ 
برگد مجھ سے پوچھ رہا تھا . . 
اور میں گم سم ، خالی آنکھوں سوچ رہا تھا . . 
جانے اب وہ کیسی ہو گی . . 
شام ڈھلی تھی . . 
وقت رکا تھا . . 
اور اک کوئل بول رہی تھی . .

*************

نذر حُسین ناز

4 comments: