Foziya Rabab

نام:فوزیہ رباب
تاریخِ پیدایش: 25 جولائی
جائے پیدائش: احمد آباد (گجرات، انڈیا)
موجودہ شہر کانام: گوا (انڈیا)
شعری سفر: 2015 
آنے والی کتاب: مری زخم زخم عقیدتیں



اب تمہاری یاد پتھر ہو گئی
ہو گئی برباد پتھر ہو گئی

بے خبر میرے تجھے اس بار میں
کرتے کرتے یاد پتھر ہو گئی

عرش کی جانب چلی تھی اور پھر
وہ مری فریاد پتھر ہو گئی

بہہ نہیں پائی تمہاری آنکھ کیوں؟
کیوں مری روداد پتھر ہو گئی؟

ہائے دل نگری کے بارے کیا کہوں
ہو کے جو آباد پتھر ہو گئی

حوصلے اتنے مرے نازک نہیں 
پڑ گئی افتاد پتھر ہو گئی

اب مجھے حیرت نہیں ہوتی سنو
میں تمہارے بعد پتھر ہو گئی

منجمد تھا وہ غزل سن کر مری
اور ساری داد پتھر ہو گئی

فوزیہ رباب

*************

لوگ کرتے ہیں فقط وقت گزاری، پاگل!
کوئی کرتا ہی نہیں بات ہماری، پاگل!

اس نے اک بار کہا کوئی نہیں تم جیسا
خود کو بھی لگنے لگی تب سے میں پیاری، پاگل

تو بھی ہنس ہنس کے کیا کرتا تھا باتیں اور میں
تیری باتوں میں چلی آئی بیچاری پاگل

ایک مدت سے تری راہ میں آ بیٹھی ہے
عشق میں تیرے ہوئی راجکماری پاگل

یوں نہیں ہے کہ فقط نین ہوئے ہیں میرے
دیکھ کر تجھ کو ہوئی سارے کی ساری پاگل

اس نے پوچھا کہ مری ہو ناں؟ تو اتنا بولی
ہاں تمہاری، میں تمہاری، میں تمہاری پاگل

میں ربابؔ اس سے زیادہ بھی تجھے کیا دوں اب
زندگی ہی جو ترے نام پہ واری پاگل

فوزیہ رباب

*************

مجھ کملی کا سنگھار پیا
ان سانسوں کا سردار پیا

تجھ بن در، چھت، دیوار ڈسے
تجھ بن سونا گھر بار پیا

ہر جذبے کی پہچان بھی تو
تو سانول ، تودلدار پیا

ان سر آنکھوں پر حکم ترا
میں مانوں ہر ہر بار پیا

تو ہی میرا غمخوار سجن
میں کرتی ہوں اقرار پیا

اب سانسیں چُور و چُور ہوئیں
اب آ مل تو اک بار پیا

اک دکھ نے گھیرا ڈال لیا
اب لے چل نگری پار پیا

ہے من اندر اک آس تری
تُو سانسوں کو درکار پیا

ہر منزل پا کر ہجر ملے
سب راہیں بھی پُر خار پیا

تو پاکیزہ سی ایک دعا
یہ دل تیرا دربار پیا

اک سکھ سے سوئے وصل ترا
جانے کب ہو بیدار پیا

پھر چاہت کی اک بات تو کر
مت چپ چپ رہ کر مار پیا

تک تک راہیں اب نین تھکے
یہ برسیں زاروزار پیا

اب دے ہاتھوں میں ہاتھ مرے
میں اک تیری بیمار پیا

فوزیہ رباب

*************

زلفِ محبت برہم برہم می رقصم
وجد میں ہے پھر چشمِ پرنم می رقصم

عشق کی دھن میں آنکھیں نغمہ گائیں گی
گھول مرے جذبوں میں سرگم، می رقصم

 سائیاں زخم تمہاری جانب تکتے ہیں
آج لگا نینوں سے مرہم، می رقصم

میری مستی میں سرشاری تیری ہے
میرے اندر تیرے موسم، می رقصم

 وحدت کا اک جام پلا دے آنکھوں سے
ایک نظارا دیکھوں پیہم، می رقصم

آ سانول آ ایسے آن سما مجھ میں
یکجا ہوں دو روحیں باہم، می رقصم

پھیل گئی ہر گام ربابؔ محبت یوں
می رقصم، می رقصم رقصم، می رقصم

فوزیہ رباب

*************
تھی اس کے لیے خواب کی تعبیر، کوئی ہیر
کرتی تھی نہ رانجھے کو جو تسخیر، کوئی ہیر

ہوتی ہے وہ عزت بھی، وہ بیٹی بھی، حیا بھی
کیوں پہنے فقط عشق کی زنجیر، کوئی ہیر

اس درجہ تمہیں پاسِ زمانہ ہے بھلا کیوں
کیا تم نہ کرو گے کبھی تعمیر کوئی ہیر

الزام تو آتا ہے فقط عشق کے سر ہی
رانجھن کی تو کرتی نہیں تحقیر کوئی ہیر

تو بھی تو کبھی سوچ مری ذات کے محور
کیا آپ ہی کرتی رہے تدبیر کوئی ہیر

اب کون سنائے گا رباب عشق صحیفہ
کرتی جو نہیں اب کوئی تفسیر، کوئی ہیر

فوزیہ رباب

*************

حسنِ سادہ کا وار آنکھیں ہیں 
بن ترے بیقرار آنکھیں ہیں

میری جانب ہے جو ترا چہرہ
میری جانب ہزار آنکھیں ہیں

عیب تیرا کہاں چھپے گا اب
شہر میں بے شمار آنکھیں ہیں

میں نے طرز وفا تھا اپنایا
اس لئے اشکبار آنکھیں ہیں

پارسائی کہاں گئی؟ بولو!
آج کیوں داغدار آنکھیں ہیں؟

ایک نقشہ تھا خواب کا کھینچا
اس لئے تار تار آنکھیں ہیں

جیسے ان میں سحاب رہتے ہوں 
کتنی زار و قطار آنکھیں ہیں

جن کی تعبیر میں ملے وحشت 
ایسے خوابوں پہ بار آنکھیں ہیں

وہ جو چہرہ ہی پڑھ نہیں سکتیں
کتنی جاہل گوار آنکھیں ہیں

وہ نظر آر پار ہوتی ہے
ہائے کیا دلفگار آنکھیں ہیں

خواب دیکھا رباب نے کیونکر
اس لئے سوئے دار آنکھیں ہیں

فوزیہ رباب

*************


No comments:

Post a Comment