نام: محمد ندیم خان بھابھہ
تاریخ پیدائش: 16 جنوری 1977
جائے پیدایش: میلسی
موجودہ شہر: لاہور
باقاعدہ شعری محافل میں آنا جانا 1993 سے ہوا
باقاعدہ شعری محافل میں آنا جانا 1993 سے ہوا
اور 2000 میں پہلی کتاب "میں کہیں اور جا نہیں سکتا" اور 2005 میں دوسری کتاب "تمہارے ساتھ رہنا ہے" الرزاق پبلی کیشنز سے شائع ہوئی جن کے بعد میں کئی ایڈیشن شائع ہوئے
پھر تنہائی نے اپنی جانب کھینچا اور 2009 میں ادبی محافل اور سرگرمیوں سے دور ہوگیا
میں یار لوگوں نے 2013 پھر اپنی دنیا میں بلا لیا اور مجموعہ کلام "حال" کے نام سے شائع ہوا جس میں کچھ تازہ غزلیں بھی شامل کیں۔
میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں
کسی کی آنکھ میں پانی ہی پانی چھوڑ آیا ہوں
ابھی تو اُس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے
ابھی تو اُس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں
بس اِتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیاہوں
اسی خاطر مرے چاروں طرف پھیلا ہے سنّاٹا
کہیں میں اپنے لفظوں کے معانی چھوڑ آیا ہوں
میں ایسا بے نشاں ہوں اپنا ہونا بھی مٹا آیا
میں ایسا رائیگاں ہوں رائیگانی چھوڑ آیا ہوں
*************
قیس و لیلیٰ کا طرفدار اگر مر جائے
میں بھی مر جائوں یہ کردار اگر مر جائے
پھر خدایا تجھے سورج کو بجھانا ہو گا
آخری شخص ہے بیدار اگر مر جائے
چھُپنے والے تُو کبھی سوچ کہ اِک دن بالفرض
یہ مری خواہش دیدار اگر مر جائے
باندھ رکھی ہو قبیلے نے توقع جس سے
اور اچانک ہی وہ سردار اگر مر جائے
عین ممکن ہے کہ آجائے مرا نام کہیں
شہرِ لیلےٰ کا گنہگار اگر مر جائے
منتظر جس کی یہ آنکھیں ہیں کئی برسوں سے
اور وہ چاند بھی اُس پار اگر مرجائے
*************
دل میں کیوں کر اُتر نہیں جاتا
جو مجھے چھوڑ کر نہیں جاتا
یوں لگا ہوں تِرے گلے سے میں
جس طرح کوئی ڈر نہیں جاتا
اُنگلیاں پھیر میرے بالوں میں
یہ مِرا دردِ سر نہیں جاتا
کیوں مرا آس پاس گھومتا ہے
کیوں یہ نشّہ اُتر نہیں جاتا
سب تِری انجمن میں بیٹھے ہیں
کوئی بھی شخص گھر نہیں جاتا
یوں پڑا ہوں تمہاری یادوں میں
جس طرح کوئی مر نہیں جاتا
*************
بس یہی کچھ ہے مرتبہ مرے پاس
ایک تُو ہے اور اک دعا مرے پاس
یہ تِری گفتگو کا لمحہ ہے
اِس گھڑی ہے مرا خدا مرے پاس
تیرا نعم البدل نہیں کوئی
تُو فقط ایک ہی تو تھا مرے پاس
تجھے کچھ وقت چاہیے مری جاں
وقت ہی تو نہیں بچا مرے پاس
اب میں جھگڑا کروں تو کس سے کروں
اب تو تُو بھی نہیں رہا مرے پاس
میں نے تجھ کو خدا سے مانگا تھا
لوٹ آئی مگر دعا مرے پاس
اِس لیے خود کو زندہ رکھا ہے
تُو کبھی لوٹ آئے گا مرے پاس
*************
سفر میں دھوپ رہی سائبان ہوتے ہوئے
کہ بے نشان گئے ہم نشان ہوتے ہوئے
جو مجھ میں کھیلتا رہتا تھا مر گیا لڑ کا
ستم تو یہ ہے مَرا بھی جوان ہوتے ہوئے
گزر رہی ہے مری عمر سخت محنت میں
میں اُڑ رہا ہوں پروں میں تکان ہوتے ہوئے
عجیب چُپ سی لگی ہے تمہارے بعد ہمیں
سخن بھی کر نہیں سکتے زبان ہوتے ہوئے
اب اِس کے بعد مجھے گفتگو میں مت رکھنا
میں تھک گیا ہوں مسلسل بیان ہوتے ہوئے
*************
روح حاضر ہے مرے یار کوئی مستی ہو
حلقۂ رقص ہے تیار کوئی مستی ہو
مجھ کو مٹی کے پیالے میں پلا تازہ شراب
جسم ہونے لگا بے کار کوئی مستی ہو
چار سمتوں نے تِرے ہجر کے گھنگھرو باندھے
اور ہم لوگ بھی ہیں چار کوئی مستی ہو
میں مَن و تُو کے صحیفوں کی تلاوت کروں گا
بے وضو ہوں مری سرکار کوئی مستی ہو
کوئی واعظ نہ وظیفہ نہ کوئی صوم و صلوٰۃ
جان چھوٹے مری اِک بار کوئی مستی ہو
تیرے احساس کی شدت سے بھرا بیٹھا ہوں
اب نہ انکار نہ اقرار کوئی مستی ہو
بے نیازانہ رہے گا تِری دنیا میں فقیر
خواب و خواہش نہیں درکار کوئی مستی ہو
*************
ہےمرے واسطے دعا مرا عشق
مجھ کو زرخیز کر گیا مرا عشق
تجھ کو ہی مانگنا نہیں آیا
میری جھولی تو بھر چکا مرا عشق
سب نے اپنی سلامتی مانگی
میں پُکارا کہ اے خدا مرا عشق
پہلے میں نور سے ہوا واقف
اور پھر مجھ پہ کھل گیا مرا عشق
وہم نے اختیار کی اِک شکل
پھر مرے دل میں آ بسا مرا عشق
یہ زیارت بھی ہے تلاوت بھی
ایک چہرے پہ ہے لکھا مرا عشق
میرے کمرے کی کائنات میں آ
نظر آئے گا جا بجا مرا عشق
تم الف لام میم میں ڈھونڈو
انہی حرفوں میں ہے چھپا مرا عشق
*************
حالتِ حال میں آداب نہیں بھولتا میں
خود کو بھولوں بھی تو احباب نہیں بھولتا میں
میں ابھی عشق نہیں حالتِ ایمان میں ہوں
جنگ کرتے ہوئے اسباب نہیں بھولتا میں
جذب کرتی ہوئی خلقت سے محبت ہے مجھے
چاند کو چھوڑیے تالاب نہیں بھولتا میں
اے مجھے خواب دکھاتے ہوئے لوگو سُن لو
میرا دکھ یہ ہے کوئی خواب نہیں بھولتا میں
پارسائی نہیں تنہائی میسّر تھی وہاں
سو تِرے منبر و محراب نہیں بھولتا میں
*************
دل سے اک یاد بھلا دی گئی ہے
کسی غفلت کی سزا دی گئی ہے
میں نے منزل کی دعا مانگی تھی
میری رفتار بڑھا دی گئی ہے
عیب دیوار کے ہوں گے ظاہر
میری تصویر ہٹا دی گئی ہے
میں نے اِک دل پہ حکومت کیا کی
مجھے تلوار تھما دی گئی ہے
اب محبت کا سبب ہے وحشت
ورنہ حسرت تو مٹا دی گئی ہے
اب یہاں سے نہیں جا سکتا کوئی
اب یہاں شمع جلا دی گئی ہے
اس لیے جم کے یہاں بیٹھا ہوں
مجھ کو میری ہی جگہ دی گئی ہے
*************
محمد ندیم بھابھہ
No comments:
Post a Comment