Mubashir Saeed

نام:مبشر سعید
تاریخِ پیدایش:14-06-83
جائے پیدائش:ملتان
موجودہ شہر کانام:ملتان
شعری سفر: 2006 سے باقاعدہ شعر کہہ رہے ہیں اور مجموعہ کلام عنقریب شائع ہونے والا ہے۔




دشت ہجراں سے محبت کو نبھاتے ہوئے ہم
خاک ہوتے ہیں میاں! خاک اڑاتے ہوئے ہم

اِک عجب عالمِ حیرت میں چلے جاتے ہیں
تیری آواز میں آواز ملاتے ہوئے ہم

صورت حال کو رنجور بنانے والے 
کیسے لگتے ہیں تجھے رنج مناتے ہوئے ہم ؟؟

صاحب کشف پرندوں کی کہانی کہہ کر
سو گئے آپ درختوں کو سلاتے ہوئے ہم

یاد ہے تجھکو مری روح میں بستے ہوئے شخص
کتنا ہنستے تھے سدا باغ کو جاتے ہوئے ہم

موسم رنج میں بے حال سے ہوتے ہیں سعیدؔ
اپنی آنکھوں سے تری یاد بہاتے ہوئے ہم

*************


جو رنگہائے رُخِ دوستاں سمجھتے تھے
وہ ہم نفس بھی مرا دکھ کہاں سمجھتے تھے

محبتوں میں کنارے نہیں مِلا کرتے
'مگر یہ ڈوبنے والے کہاں سمجھتے تھے 

کھُلا کہ چادرِ شب میں بھی وسعتیں ہیں کئی
ذرا سی دھوپ کو ہم آسماں سمجھتے تھے

خزاں کے عہدِ اسیری سے پیشتر طائر
چمن میں موسمِ گُل کی زباں سمجھتے تھے

انہیں بھی دہر کی فرزانگی نہ راس آئی
جو کارِ عشق میں سُود و زیاں سمجھتے تھے

کسی کا قُرب قیامت سے کم نہیں تھا سعید
فقط فراق کو ہم امتحاں سمجھتے تھے

*************

میں نے دیکھا ہے اُس کی آنکھوں مِیں
کوئی رہتا ہے ہے اُس کی آنکھوں مِیں

سب کی آنکھوں سے حل نہیں ہوتا
کیا معمہ ہے اُس کی آنکھوں مِیں؟؟

آنکھ ٹکتی نہیں ہے دیکھے سے
وہ اجالا ہے اُس کی آنکھوں مِیں

میں کنارے سے دیکھ سکتا ہوں
کوئی دریا ہے اُس کی آنکھوں مِیں

اُس کی آنکھوں پہ لوگ مرتے ہیں
کچھ تو ایسا ہے اُس کی آنکھوں مِیں

وہ جو منزل کی اور جاتا ہے
کوئی رستہ ہے اُس کی آنکھوں مِیں

حسن خوبانِ جملہ عالم کا
سمٹ آیا ہے اُس کی آنکھوں مِیں

وہ سمندر مثال ہے، تب ہی
چاند ڈوبا ہے اُس کی آنکھوں مِیں

صبح ہونے کا خوشنما منظر
بھیگا بھیگا ہے اُس کی آنکھوں مِیں

سب لگے ہیں تلاش کرنے میں
کیا خزانہ ہے اُس کی آنکھوں مِیں؟؟ 

حرف در حرف یاد ہے مجھ کو
جو بھی دیکھا ہے اُس کی آنکھوں مِیں

حسن آدھا ہے مسکراہٹ مِیں
اور، پورا ہے اُس کی آنکھوں مِیں

رات ، زلفوں مِیں ڈوب جاتی ہے
دن نکلتا ہے اُس کی آنکھوں مِیں

یہ مبشرؔ ؔ ؔ ؔ ؔ بھی دھیان جینے کا
بھول آیاہے اُس کی آنکھوں مِیں

*************

زرد موسم کی اذیت بھی اٹھانے کا نہیں
میں درختوں کی جگہ خود کو لگانے کا نہیں

اب ترے ساتھ تعلق کی گزرگاہوں پر
وقت مشکل ہے، مگر ہاتھ چھڑانے کا نہیں

قریہءِ سبز سے آتی ہوئی پر کیف ہوا !
طاق پر رکھا مرے دیپ بجھانے کا نہیں

صبر کا غازہ مرے عشق کی زینت ٹھہرا
سو، میں آنکھوں سے کوئی اشک بہانے کا نہیں

بات یہ مجھ کو درختوں نے بتائی ہوئی ہے
ہر نیا زخم زمانے کو دکھانے کا نہیں

چل رہا تھا تو سبھی لوگ مرے بازو تھے
گر پڑا ہوں تو کوئی ہاتھ بڑھانے کا نہیں

مجھ کو یہ میر تقی میر بتاتے ہیں سعید
عشق کرنا ہے مگر جان سے جانے کا نہیں

*************

شام کی  زرد اداسی میں بٹھا ؤں تجھ کو
زندگی ! آ کبھی سینے سے لگاؤں تجھ کو

عالم ہوش کو  مدہوش بنانے کے لیے
آیتِ حسن پڑھوں دیکھتا جاؤں تجھ کو

تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں ہو کے دکھاؤں تجھ کو

کر لیا ایک محبت پہ گزارا میں نے
چاہتا تھا کہ میں پورا بھی تو آؤں تجھ کو

شب آلام کو ضوریز بنانے کے لئے 
قصہ قیس پڑھوں ، پھونکتا جا ؤں تجھ کو

اس نے اک بار مجھے پیار سے پوچھا تھا سعید
کیا یہ ممکن ہے ، کہ میں یاد نہ آ ؤں تجھ کو

*************

مبشر سعید

No comments:

Post a Comment