Mohammad Yousaf

نام:محمد یوسف
تاریخِ پیدایش:19 ستمبر 1984
جائے پیدائش:فیصل آباد
شہر کانام:فیصل آباد
شعری سفر:باقاعدہ 3 سال سے۔۔ کتاب انشاءاللہ عنقریب


وہ بظاہر جو مری جان بنے بیٹھے ہیں
ہاں وہی درد کا سامان بنے بیٹھے ہیں

اک نظر تکنے کا اُ ن کو یہ نتیجہ نکلا
اب مرے دل میں وہ مہمان بنے بیٹھے ہیں

اُن کی آنکھوں سے عیاں انکی محبت ہے مگر
وہ ہیں کہ جان کے انجان بنے بیٹھے ہیں

بربریت کی حدیں پار ہوئی جاتی ہیں
حیف ! انسان بھی حیوان بنے بیٹھے ہیں

ان کے کردار سے بھی جہل کی بو آتی ہے
کیوں خرد مند بھی نادان بیٹھے ہیں ؟

جن کو کچھ گل کا پتہ ہے نہ خبر خاروں کی
وہ گلستاں کے نگہبان بنے بیٹھے ہیں

جو مری زیست کی خوشیوں کا سبب تھے یوسف
اب مرے درد کا عنوان بنے بیٹھے ہیں

*************

اجنبی سارے ہی غمخوار نظر آتے ہیں
آشنا باعثِ آزار نظر آتے ہیں

کیوں محبت میں وہی لوگ دغا دیتے ہیں ؟
جاں چھڑکنے پہ جو تیار نظر آتے ہیں

جاں کنی میں ترا دیدار میسر جو ہوا
مجھ میں اب زیست کے آثار نظر آتے ہیں

پارسا خلقِ خدا میں جو بنے پھرتے ہیں
داغدار اُن کے بھی کردار نظر آتے ہیں

فیصلے رب کے سپرد اپنے میں جب کرتا ہوں
پرخطر راستے ہموار نظر آتے ہیں

گُل مسلتا ہوا دِکھتا ہے یہاں خود گلچیں
راہزن ، قافلہ سالار نظر آتے ہیں

ہر گھڑی کھوئے سے ،چپ چاپ سے اور بے سدھ سے
جرمِ الفت کے گنہگار نظر آتے ہیں

مکتبوں پر ہے عجب چھائی فضا دہشت کی
سہمے سے قوم کے معمار نظر آتے ہیں

*************

یہ جدا ہونے کا منظر نہیں دیکھا جاتا
جانے والے سے بھی مڑ کر نہیں دیکھا جاتا

بے شبہ قرب مزہ دیتا ہے پر بعد اسکے
کرب سا سینے کے اندر نہیں دیکھا جاتا

کوئی تجھ کو جو محبت کی نظر سے دیکھے
ہم سے ایسا تو سراسر  نہیں دیکھا جاتا

تیرے ماتھے پہ یہ شکنیں نہیں دیکھی جاتیں
تیرا خفگی کا یہ تیور نہیں دیکھا جاتا

دل کی سب باتیں تو چہرے سے پڑھی جاتی ہیں 
جھانک کر سینے کے اندر نہیں دیکھا جاتا

جب سے وہ رونقِ محفل ہوا رخصت یوسف
اپنا ویران سا یہ گھر نہیں دیکھا جاتا

*************

لوگ اس دنیا میں کچھ ایسے بھی بستے ہیں ابھی
زندہ رہ کر زندگی کو جو ترستے ہیں ابھی

زندگی ہر گام ہر دیکھے نئے سپنے مگر
ہے بہت تعبیر مہنگی خواب سستے ہیں ابھی

کیا خبر ہم پر فدا ہیں جو وہ دے جائیں دغا
آستیں میں پلنے والے سانپ ڈستے ہیں ابھی

اپنے حصے کی خوشی سب کو ملے گی ایک دن
چہروں پہ ہے مسکراہٹ لوگ ہنستے ہیں ابھی

زیست کو اک خوبصورت موڑ دے سکتے ہیں ہم
الجھنوں سے بچ نکل جانے کے رستے ہیں ابھی

تجھ کو غم کس بات کا یوسف تو کیوں مایوس ہے
ابر تیرے رب کی رحمت کے برستے ہیں ابھی

*************

ملے جو مسکرا کر اس کو اپنا مان لیتے ہیں
دلاسہ دے کوئی اس کو مسیحا جان لیتے ہیں

طبیعت نہ ہو مائل جس پہ وہ ہر گز نہیں کرتے
مگر کر کے دکھاتے ہیں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

کوئی خوش ہی نہیں ہے جب ہمارا فائدہ کر کے
تو پھر ہم کیوں کسی کا مفت میں احسان لیتے ہیں

کبھی جو اپنے پیاروں پہ کوئی الزام آ جائے
تو ہم ایسے میں مجرم خود کو ہی گردان لیتے ہیں

 ہدف اپنی نگاہوں سے کوئی بھی بچ نہیں پاتا
خطا ہوتا نہیں جس پر نشانہ تان لیتے ہیں

نہیں کرتے کبھی حالات کا شکوہ، گلہ یوسف
جو مل جائے اسی کو بس غنیمت جان لیتے ہیں

*************
محمد یوسف

No comments:

Post a Comment