Ishtiaq Zain


نام: اشتیاق محمودناز
قلمی نام: اشتیاق زینؔ
تاریخ پیدائش: ۲۰ فروری 1972
جائے پیدائش:  چک بہرام، جہلم
جائے سکونت: سلاؤ، ( لندن)،  انگلینڈ
شعری سفر: باقاعدہ لکھنے کا آغاز  ۲۰۰۰ میں ہوا، پہلی کتاب  ۲۰۰۹ میں ’’ عشق آتش مزاج ہے جاناں ‘‘ کے نام سے شائع ہو ئی، دوسری کتاب زیرِ طبع ہے۔





پسِ مرگِ تمنا

مجھے اُس سے یہ کہنا تھا
تمہی تو ہو،مرے دل نے
جسے دیکھا تھا خوابوں میں
جسے مانگا دُعاؤں میں
تھی دِل کو آرزو جس کی
مجھے تھی جستجو جس کی
تمہی تو ہو، تمہی تو ہو 
مگر کیسے کہوں اُس سے؟
ابھی اِس سوچ میں گم تھا
اچانک جب کہا اُس نے
یونہی باتوں ہی باتوں میں
’’کسی کا نام لکھا ہے
مری قسمت کے ماتھے پر
بدلنا جس کو ناممکن
بھلے ہم دوست ہیں لیکن
ہمارا ساتھ ہے اتنا
کہ جیسے پھول پر شبنم
یہی تقدیر ہے اپنی
جدا ہو جائیں گے ہم تم
بہت تھوڑے ہیں دن باقی
پیا گھر جب میں جاؤں گی
نئی دنیا بساؤں گی،‘‘
بظاہر ہنس کے تب میں نے
کہا اُس سے مبارک ہو
نئی منزل، نئی دنیا
تجھے ساری تری خوشیاں
مگر اِک چیخ سی اُٹھی
کہیں میرے ہی سینے سے
کہ جیسے آخری ہچکی
لبِ بیمار سے نکلے
لگا مجھ کو، مرے اندر
کہ جیسے مر گیا کوئی

*************

التماس

یہی گر ضد تمہاری ہے
چلو ہم بھول جاتے ہیں
سبھی وعدے،سبھی قسمیں
محبت کی سبھی رسمیں
نہیں منظور جو تم کو
کریں رنجور جو تم کو
تمہاری شادمانی ہی عزیز از جان ہے جب تو)
تمہیں پھر ٹوکنا کیسا؟
(زیاں و سود کی بابت بھلا پھر سوچنا کیسا؟
چلو ہم بھول جاتے ہیں
محبت کی ریاضت میں
وفاؤں کی مسافت میں
قدم کس کے کہاں بہکے،ہوئی کس سے کہاں لرزش
کہ در آئی اچانک سے ہماری آنکھوں میں بارش
اور اُس کی تیز بوندوں نے
کسی تیزاب کی صورت
 نشانِ منزلِ دل ہی جلا ڈالا، مٹا ڈالا
مگر جاناں
کہاں آسان ہوتا ہے؟
جگر کا خون اشکوں میں بدلنااور ۔۔۔بہا دینا
خس و خاشاک چن چن کر
نشیمن اک بنانا اور ۔۔۔اُسی کو پھر جلا دینا
جواں سپنوں کی لاشوں کو
درونِ جاںچھپاکر۔۔۔مسکرا دینا
خزائیں پالنا خود میں،بہاریں بانٹتے پھرنا
کہاں آسان ہوتا ہے؟
بہت ممکن ہے ہم بھی ہار ہی جائیں
جواں ہے ضبط جو اب تک
مقابل غم کے آئے۔۔۔۔اور ڈھے جائے
اور اس میں بھی تعجب کیا
تمہارے لوٹ آنے کی،بچی ہو آس جو کوئی
نوائے بے زباں بن کر
سسک کر پھر سے اٹھے اور۔۔۔ تم تک بھی پہنچ جائے
سو تم سے یہ گزارش ہے
تب اک احسان تم کرنا
پلٹ کر دیکھنا یوں سرد نظروں سے
کہ جو بھی آس زندہ ہو
اُسے یکسر مٹا دینا
ہمیں پتھر بنا دینا

*************

آرزوئے نا تمام


اگر شاعر جو میں ہوتا
تو لکھتا اک غزل ایسی
میںتیرے حسن کی توصیف میں جاناں
زمانہ رشک کرتا جس پہ صدیوں تک
حسینائیں حسد کی آگ میں جلتیں
ترے دیدار کے داعی
کبھی ہوتے جو مایوسِ تجلی تو
مری تحریر کو پڑھ کر
تصور ہی تصور میں ترا دیدار پا لیتے
مصور گر میں ہوتا تو
میں چنتا پھول سب تازہ
ملا کر چاند کی کرنیں
انہیں پھر گوندھتا جھرنوں کے پانی میں
بنا کر پھر تری تصویر جانِ جاں
سجاتا یوں شبِ روشن کے تاروں سے
کہ جو بھی دیکھتا اُس کو
تجھے ہی روبرو پاتا
مگر جاناں
میں شاعر ہوں نہ ہوں کوئی مصور ہی
مرے کاندھوں پہ ہیں مجبوریاں میری
جنہیں دن رات ڈھوتا ہوں
مرے دستِ ہنر پر ہے مری تقدیر کا قبضہ
مجھے تصویر جو تیری بنانے ہی نہیں دیتی
مری تاریک راتوں میں کبھی تنویر آنے ہی نہیں دیتی
مری سوچوں پہ رہتے ہیں مرے حالات کے پہرے
جو کوئی لفظ بننے ہی نہیں دیتے
مجھے کچھ بھی وہ لکھنے ہی نہیں دیتے
اگر شاعر جو میں ہوتا
تو لکھتا اک غزل ایسی
میں تیرے حسن کی توصیف میں جاناں
اگر شاعر جو میں ہوتا

*************


زینؔ جن پرندوں کے بال و پر نہیں ہوتے
اُن کے گھونسلے بھی تو اوج پر نہیں ہوتے

جن گھروں کی قسمت میں سکھ نہ ہو مکینوں کا
وہ مکاں تو ہوتے ہیں، گھر مگر نہیں ہوتے

منزلوں کو پانے میں عمر بیت جاتی ہے
راستے وفاؤں کے، مختصر نہیں ہوتے

کاش! مان لیتا دل، راہِ عشق میں ہر پل
تن جلاتی دھوپ ہے، اور شجر نہیں ہوتے

ہم بھی کتنے ناداں تھے، جان ہی نہیں پائے
ساتھ چلنے والے سب، ہمسفر نہیں ہوتے

سو نقاب چہرے پر، ہر کوئی سجائے ہے
لوگ جیسے دِکھتے ہیں، بیشتر نہیں ہوتے

دل کی بات کیا کیجیے، یہ تو نا سمجھ ٹھہرا
فیصلے جو کرتا ہے، معتبر نہیں ہوتے

لُٹ گئی متاعِ جاں تب سمجھ میں آیا ہے
درد بانٹنے والے، چارہ گر نہیں ہوتے

زینؔ کیا سناتے ہو، اِن بتوں کو دردِ جاں
پتھروں کے سینے میں، دل، جگر نہیں ہوتے

*************

ساتھ چھوٹا جو ترا تو چلے آئے آنسو
ہم نے کب شوق سے آنکھوں میں بسائے آنسو

کتنے انمول نظارے تھے نظر کے طالب
چشمِ بے داد کو بھائے بھی تو بھائے آنسو

جو بدلتا تھا بساطِ غمِ ہستی، ہنس کر
اب کہ چپ چاپ کھڑا ہے، وہ سجائے آنسو

ہے مقدر کی مدارات کہ چاہت کا صلہ
خواب ہی خواب جہاں تھے، وہاں پائے آنسو

اپنے ہی سود و زیاں کو سبھی روتے ہیں یہاں
کون پلکوں پہ سجاتا ہے پرائے آنسو

زندگی جنگ ہے، جیتے گا یہاں زینؔ وہی
جس نے آنکھوں کے دریچوں سے ہٹائے آنسو

جب سے مہمان وہ بنے دل کے
کب ہیں قابو میں ولولے دل کے

اک نظر میں ہی دل میں آ پہنچا
جانتا تھا وہ راستے دل کے

لب تھے خاموش وصل کی شب کو
دل سے ہوتے رہے گلے دل کے

رات دن اُس کو سوچتے رہنا
کتنے خوش کن ہیں سلسلے دل کے

نام محفل میں جب ترا آیا
تار بجنے لگے مرے دل کے

تم نہ سمجھو، مگر حقیقت ہے
دل سے ہوتے ہیں رابطے دل کے

اب جو سوچوں تو یاد آتا ہے
کتنے مشکل تھے راستے دل کے

درد کتنے یہ ہنس کے سہتا ہے
زینؔ دیکھو تو حوصلے دل کے

*************

ہر کوئی پریشاں بس، آشیاں کے بارے میں
کس کو ہے پڑی سوچے، گلستاں کے بارے میں

جن کی سوچ پر یارو! پستیوں کا پہرہ ہو
تذکرہ ہی کیا اُن سے، آسماں کے بارے میں

راستوں کی دلدل نے کر دیا جنہیں تنہا
سوچ سوچ روتے ہیں، کارواں کے بارے میں

عمر بھر کی تاریکی، پھر نصیب میرا تھی
خواب ایک دیکھا تھا، کہکشاں کے بارے میں

پل میں توڑ ڈالے گا، سلسلے وفاؤں کے
ہم نے کب یہ سوچا تھا، بد گماں کے بارے میں

زینؔ ہم نے دیکھا ہے، آ کے دشتِ الفت میں
سب غلط تھے اندازے، اِس جہاں کے بارے میں

*************

شبِ فراق تھی، گزری یوں رات آنکھوں میں
بسر ہو جیسے، کسی کی حیات آنکھوں میں

خوشی کی بات بھی ہو تو چھلک پڑیں آنسو
عجب سے ہونے لگے حادثات آنکھوں میں

بسے ہوئے تھے یہاں خواب جو کہاں وہ گئے؟
کدھر سے اشک یہ لائے برات آنکھوں میں؟

نظر نظر سے ملاتا تو جان لیتا وہ
لکھی ہوئی تھی مرے دل کی بات آنکھوں میں

کہاں گئی وہ محبت، یہ بے رخی کیونکر؟
الجھ رہے ہیں سبھی واقعات آنکھوں میں

بھلا چکا میں اُسے زینؔ، یوں تو کب کا مگر
نشاں سے چھوڑ گئی ہے وہ مات آنکھوں میں

*************

عشق آتش مزاج ہے جاناں
دل، نظر کا خراج ہے جاناں

دردِ الفت سے بچ کے رہنا تم
روگ یہ لاعلاج ہے جاناں

دل کے بدلے وبالِ جاں لینا
چاہتوں میں رواج ہے جاناں

کل نہ آیا کبھی، نہ آئے گا
جو بھی ہے، بس یہ آج ہے جاناں

زندگی یوں بھی خوبصورت ہے
پیار اُس پر یہ ساج ہے جاناں

تیری آنکھوں سے مجھ کو لگتا ہے
پیار تجھ کو بھی آج ہے جاناں

کتنی معصوم ہے یہ چاہت تو
پھر بھی دشمن سماج ہے جاناں

زینؔ تجھ سے یہ آج کہتا ہے
دل پہ تیرا ہی راج ہے جاناں

*************

دیوانگی کا ہم پہ جو الزام ہے، تو ہو
چرچا یہ ہر زباں پہ سرِ عام ہے، تو ہو

تقدیسِ عشق میں ہمیں منظور تشنگی
لبریز خواہشوں کا اگر جام ہے، تو ہو

لکھا ہے جو نصیب میں، ملتا ہے بس وہی
بے نام گر حیات کا انجام ہے، تو ہو

مجھ کو عزیز جاں سے ہیں تیرے یہ رنج و غم
نغمہ جو اب خوشی کا سرِ بام ہے، تو ہو

سینچیں گے ہر کلی کو جگر کے لہو سے ہم
گلشن میں گر جو کام یہ بدنام ہے، تو ہو

بدلوں گا خو وفا کی، کسی طور بھی نہ میں
شامل جو عاصیوں میں مرا نام ہے، تو ہو

اے یارِ خوش خرام، تری کج روی کی خیر
میرے لئے یہ موجبِ آلام ہے، تو ہو

گر چل پڑے ہیں زینؔ تو رکنا فضول ہے
اب راستے میں غم کی اگر شام ہے، تو ہو

*************
اشتیاق زین


No comments:

Post a Comment