نام۔ شہباز ملک
قلمی نام۔ شہباز یادش
تاریخ پیدائش۔ 17-5-1986
جائے پیدائش۔ خانیوال
نیا مسکن۔ لاہور۔
شعری سفر۔ 2013
کم سن ہوں کم سخن ہوں ولے ناشنیدہ ہوں
غالب کو میر کو میں مگر برگزیدہ ہوں
کاغذ پہ خون روتی ہوئی توسنِ خرام
ہر لفظ با زبانِ سخن خوں چشیدہ ہوں
گریہ یہ میری جاں کو کوئی آج کا نہیں
جس روز نکلا خُلد سے سو آب دیدہ ہوں
کس آرزو پہ کوئی مجھے دست گاہ ہو
ہوں خستہ حال کیسہ و دامن دریدہ ہوں
اچھا تو ہے کہ چھیڑ نہ حالِ زبوں مجھے
ناخن دراز معنی میں سینہ کشیدہ ہوں
یادش خیال اچھا ہے اچھا کوئی کہے
ہر ایک مو میں سر تا پا تہمت رسیدہ ہوں
شہبازیادش
*************
کلفت میں نالہ ہائے حزیں سرخ پوش ہے
پر وہ نہ پشت چشم یہ گریہ نیوش ہے
ہے سوختہ جگر جو بچائے نہیں بچے
لعلِ بتاں خدا کہ ہمیں خون نوش ہے
کیا کیا نہ کٹ گئی ہے وصالِ فراق میں
کیا جانتےنہیں وہ کہ سب ان کو گوش ہے
ہے ہے بعیدِ مرگ مجھے رنگ باختن
ورطہ بہ جا ہوں مجھ کو نوائے سروش ہے
کیوں نہ ہو خود بین وہ آخروہ کیوں نہ ہو
پس اس پری لکا کو رعونت ہی روش ہے
ہمسایہ بھی نہ سوئے ہے نبضِ خرام سے
سر درد اس کو میرا یہ نبضِ خروش ہے
اُف کیا زباں رکھے ہے مگر آج کیا ہوا
کچھ تو بنی ہےاس پہ جویادش خموش ہے
شہباز یادش
*************
جان اک میری جان میں روئی
شش جہت سی دھیان میں روئی
ہائے وہ ایک بھی نہیں سمجھا
آنکھ کس کس زبان میں روئی
جی یہ اپنا ہی بھر نہ آوے کیوں
آ کے تنہائی کان میں روئی
وے قسم ہے کہ ڈھے گیا سنیو
داستاں جس مکان میں روئی
ہم نے دانستہ گھر ڈبویا ہے
یعنی پستی ڈھلان میں روئی
تیر ہنستا ہے دیکھ کر مجھ کو
میری چھاتی کمان میں روئی
پہلے مجنوں کو روتے دیکھوں تھا
آج لیلٰی گمان میں روئی
سنگ فرہاد پر ہیں خندہ گل
کوئی شیریں چٹان میں روئی
تاکِ یادش میں اک تھکی ہاری
حور باب الریان میں روئی
شہبازیادش
*************
گر کبھو دل سے یہ اصنام خیالی جائے
کیا عجب ہو کہ مری برد لیالی جائے
ان کو کچھ یاد کراؤ کہ وہ رستہ بھولیں
ان کے آنے کی کوئی راہ نکالی جائے
پرفشاں قلب و جگر سیلی ء تذرو یعنی
جی نہ منقارِ لکد کوب سے خالی جائے
آتشیں رح سےکوئی خستہ نوازی نہ سہی
نہ سہی داد نکوہش ہی اٹھالی جائے
بسکہ ہرزہ ہے کوئی بات جو دل سے نکلے
سامنے ان کے نطق اور نکالی جائے
ہم کو بےگور و کفن چھوڑ کے جاتے نہ بنو
ڈیڑھ مٹھی ہی سہی خاک تو ڈالی جائے
واسطےگھر کے بھی کیا سربہ گریباں ہونا
ریگِ تفتہ ہی سرِ اوک اٹھا لی جائے
تغز گویائی ہے ابہام نہیں شعر کوئی
میری تحریر یہ غالب سے ملا لی جائے
ہاو ہیہات کوئ کام نہیں ہے یادش
بسکہ دھڑکن ہی سرِ دست سنبھالی جائے
شہبازیادش
*************
حرف آخر تو نہیں ہے جو مٹا بھی نہ سکوں
یاد اتنا بھی نہیں تو کہ بھُلا بھی نہ سکوں
آمدہ ہے جو تہِ سنگ زباں میری مجھے
کیا ستم ہے کہ صدا دے کے بلا بھی نہ سکوں
دکھ تو ہے یہ کہ وہاں بات پہ کٹتی ہے زباں
درد یہ ہے کہ کوئی درد بتا بھی نہ سکوں
ایک جی ہے کہ تری دید کئے بن نہ رہے
اک نگہ ہے کہ تری اور اُٹھا بھی نہ سکوں
تُو خدا وند نہیں ہے کہ سدا دل میں رہے
دائم النقش نہیں تُو کہ مٹا بھی نہ سکوں
ان کے کوچے کی طرف راہ میں پڑتی ہے انا
راہ میں سنگ پڑا وہ کہ ہٹا بھی نہ سکوں
قابلِ داد نہیں شعر کوئی گر یادش
شعر ایسا بھی کہاں ہے کہ سنا بھی نہ سکوں
شہباز یادش
*************
کچھ نہیں ہے سوا اُداسی کے
ہم نے پائے خدا اُداسی کے
میرے لب پر کوئی ہنسی رکھ دے
دل سے پتھر اُٹھا اُداسی کے
اس خوشی سے مری نہیں بنتی
مجھ سے رشتے بنا اُداسی کے
اک اکیلا ہی مارا پھرتا ہوں
مجھ کو فرقے بتا اُداسی کے
میں تجھے اُوڑھ لوں مگر پہلے
مجھ سے پردے ہٹا اُداسی کے
میں بھی حجرے سے آ گیا باہر
تو بھی آنگن میں آ اُداسی کے
عہد فردا میں قید رکھ مجھ کو
مجھ پہ پہرے لگا اُداسی کے
مجھ کو سقراط سے عقیدت ہے
مجھ کو پیالے پلا اُداسی کے
کھینچ لے پیر سے زمیں میرے
سر پہ سورج جلا اُداسی کے
گر اُداسی کو چھوڑ دوں یادش
پاس ہو کیا بھلا اُداسی کے
کچھ نہیں ہے سوا اُداسی کے
ہم نے پائے خدا اُداسی کے
میرے لب پر کوئی ہنسی رکھ دے
دل سے پتھر اُٹھا اُداسی کے
اس خوشی سے مری نہیں بنتی
مجھ سے رشتے بنا اُداسی کے
اک اکیلا ہی مارا پھرتا ہوں
مجھ کو فرقے بتا اُداسی کے
میں تجھے اُوڑھ لوں مگر پہلے
مجھ سے پردے ہٹا اُداسی کے
میں بھی حجرے سے آ گیا باہر
تو بھی آنگن میں آ اُداسی کے
عہد فردا میں قید رکھ مجھ کو
مجھ پہ پہرے لگا اُداسی کے
مجھ کو سقراط سے عقیدت ہے
مجھ کو پیالے پلا اُداسی کے
کھینچ لے پیر سے زمیں میرے
سر پہ سورج جلا اُداسی کے
گر اُداسی کو چھوڑ دوں یادش
پاس ہو کیا بھلا اُداسی کے
شہباز یادش
*************
No comments:
Post a Comment