Haroon Afghan

نام: ہارون افغان
تاریخ پیدائش: 25 اکتوبر 1993
جائے پیدائش: کابل افغانستان
موجودہ شہر: کابل
شعری سفر: 2014 سے




کیا خدائی ہے بندگی کیا ہے
سوچتا ہوں کہ یہ سبھی کیا ہے

میں نہیں واقفِ اندھیرا سو
سوچتا ہوں یہ روشنی کیا ہے

ذہن کا ہی پتا نہیں ہم کو
آپ پوچھیں ہیں وہمگی کیا ہے

پوچھتا ہوں تو بس یہ پوچھتا ہوں
آدمی میں کمی ومی کیا ہے ؟

دہر دوڑے ہے کاٹ کھانے کو
آپ کہتی ہیں دل لگی کیا ہے؟

میں غلط ہوں تو پھر سہی کیا ہے
موت کے صبر کی گھڑی کیا ہے

ہم میاں موت کا ہی کیوں سوچیں؟
ہم کو جینے کی بھی کمی کیا ہے

*************

چشمِ خنجر کا وار چاھوں میں
میرے دل تک اتار !! چاھوں میں

اپنی ھی ذات کی تباہی کو
شدّتِ غم کا با ر چاھوں میں

مجھ کو جب تک شراب ملتی نہیں
تجھ سے بوسہ ادھار چاھوں میں

کوئی تو باز گشت سن ھی لے
کچھ تو اے دل پکار !! چاھوں میں

ھو پڑاؤ جہاں کہیں بھی مرا
واں پہ گرد و غبار چاھوں میں

*************

خوف سا خوف آبسا مجھ میں
ہونے والا ہے حادثہ مجھ میں

آخرش ہے بھی ایسا کیا مجھ میں
یار رہتا ہے جا بجا مجھ میں

مجھ میں اب اس کا نقش باقی ہے
اس قدر وہ سما گیا مجھ میں

مفلسی ایسی مفلسی ہے یار
اب تو میں بھی نہیں بچا مجھ میں

حیرتیں مجھ میں بین کرتی ہیں
رقص کرتا ہے آئینہ مجھ میں

بات کچھ ایسی ہے میاں ہارون
آدمی کوئی کھو گیا مجھ میں

*************

یہ جو امید ہار بیٹھے ہو
یعنی ہمت گزار بیٹھے ہو

بارہا دل سے اتارا تم کو
یہ تم کہ بار بار بیٹھے ہو

مر رہا ہوں تمہارے ہجر میں میں
تم بھی کیا بی قرار بیٹھے ہو

کوئی تو ہے جو مجھ کو جیت گیا
یار تم مجھ کو ہار بیٹھے ہو

اب نظر آتی ہے شوخی تجھ میں
کیا وہ وحشت اتار بیٹھے ہو

آخرش کون تھا وہ جس کیلئے
آپنی حالت سدھار بیٹھے ہو

*************

آپ اپنی مثال ہوں سو ہوں
آدمی بھی کمال ہوں سو ہوں

پیکرـ خوش جمال ہوں سو ہوں
خود ہی خود میں کمال ہوں سو ہوں

تو جمیلہ ہے مانتا ہو مگر
میں بھی حسنِ ہلال ہوں سو ہوں

اس زمانے کے واسطے اب بھی
ایک مشکل سوال ہوں سو ہوں

زندگی خود نڈھال ہے سو ہے
زندگی سے نڈھال ہوں سو ہوں

تو مری جستجوں نہیں کرنا
میں تو بس اک خیال ہوں سو ہوں

*************

غم سے دو چار ہو چکا ہوں میں
سب سے بی زار ہو چکا ہوں میں

کو بہ کو ڈھونڈتا ہوں میں اس کو
در بہ در خوار ہو چکا ہوں میں

کوئی تو حال پوچھنے آوے
سخت بیمار ہو چکا ہوں میں

دوست اب مجھ سے جو نہیں ملتے
ان پہ کیا بار ہو چکا ہوں میں ؟

پہلے میں بھی گلاب سنبل تھا
اور اب خار ہو چکا ہوں میں

*************

ہارون افغان

No comments:

Post a Comment