نام: عاصم حجازی
تاریخِ پیدایش: 29-06-1981
جائے پیدائش: اندرون پاک گیٹ
شہر کانام: ملتان
شعری سفر : شعری سفر کا آغاز سن دوہزار ایک 2001 ء سے شروع ہوا
مٹی سے بنائیں جو گہر اور طرح کے
لا کوزہ گرا دستِ ہنر اور طرح کے
مل پائے پرندوں کو بھی سایہ نہ جہاں سے
اُگ آئے زمینوں پہ شجر اور طرح کے
اس درجہ تغیر ہے زمانے کی ادا میں
ھیں لوگ ادھر کچھ تو ادھر اور طرح کے
تم دل میں امیدوں کے شجر سوچ کے بونا
مانگو گے تو پاؤ گے ثمر اور طرح کے
اب جانے خدا کونسی منزل ھے مقدر
خوابوں میں تو دیکھے ہیں سفر اور طرح کے
حالاتِ وطن ھوتے ہیں کچھ اور طرح سے
کرتے ہیں مگر لوگ نشر اور طرح کے
حیرت سے بتاتے ہیں سبھی لوٹنے والے
آباد یہاں پر تھے نگر اور طرح کے
عاصم میں وہ بدبختِ زمانہ ہوں کہ جس نے
پائے ہیں دعاؤں کے ثمر اور طرح کے
عاصم حجازی
*************
چار سُو پھیل گیا خوف قہرمانی کا
سب کو ھے مسئلہ درپیش نگہبانی کا
غیرتِ مسلمِ خوابیدہ جگادو اب تو
مٹتا جاتا ھے یہاں فرق لہو پانی کا
پھول سے بچوں کی جانوں کو کچلنے والے
نامِ مسلم پہ تُو دھبہ ہے پشیمانی کا
دلکشی میرے وطن کی نہ کبھی بھی کم ہو
اس پہ سایہ نہ پڑے دشتِ کی ویرانی کا
ہم وہ رُسوائے زمانہ کہ خدا نے جن کو
اجر بخشا ہے عطاؤں کی فراوانی کا
مسکرا کر میں وطن پر سے فدا ہو جاؤں
رنگ لائے گا یہی خوں مری قربانی کا
جبر کی رات ڈھلے گی یہ یقیں رکھ عاصم
دیکھو سورج وہ نکلتا ہے درخشانی کا
عاصم حجازی
*************
مسجدیں سجدوں سے خالی ہیں مسلمانوں کی
رونقیں دید کے قابل ہیں صنم خانوں کی
مسندِ شاہ کے سائے میں ہیں مکاّرِ ازل
کس طرح بات سنے شاہ قدردانوں کی
عزتیں کیسے ہوں محفوظ وطن میں کہ جہاں
آنکھ کھلتی نہیں غفلت سے نگہبانوں کی
ایک بس تم ہی نہیں جس کو گلہ ہے سب سے
اب یہی طرزِ ادا ٹھہری مہربانوں کی
دل سیہ سینوں میں ایسے ہیں یہاں پر عاصم
جس سے تاریکی بھی ہلکی ہے بیابانوں کی
عاصم حجازی
*************
کیا کہوں جو ہے مرے دل میں اترنے والا
بال و پر بھی ہے وہی میرے کترنے والا
اپنی برباد اُمیدوں کا کوئی رنج نہیں
دل کا دامن ہی نہیں خوشیوں سے بھرنے والا
مُشت بھر خاک ہو خود پر نہ کبھی ناز کرو
چار دن پھول بھی کھلتا ہے بکھرنے والا
وقتِ رُخصت یوں تجھے دل نے تڑپ کر دیکھا
جیسے حسرت سے تکے جاں سے گزرنے والا
کیا اُے پاسِ وفا یاد دلاؤں عاصم
وہ جو ہر بات سے اپنی ہے مکرنے والا
عاصم حجازی
*************
ہجر میں درد کا سورج پگھلنے والا ہے
عروقِ جان میں لاوا اُبلنے والا ہے
حصارِ دل کو ذرا اور پختگی دے دوں
تمھاری یاد کا لشکر نکلنے والا ہے
مرے زوال پہ ایسے نہ مسکرا کہ یہاں
ترے عروج کا سورج بھی ڈھلنے والاہے
بچا سکو تو بچا لو کہ قلبِ افسردہ
ترے فراق کی آتش میں جلنے والا ہے
خدا کی دین وہ آنکھیں دکھا رہا ہے مجھے
جو میرے جسم کے ٹکڑوں پہ پلنے والا ہے
نہ چھوڑ حوصلہ غم میں کہ جلد ہی عاصم
یہ وقت تجھ پہ جو آیا ہے ٹلنے والا ہے
عاصم حجازی
*************
محترم زین شکیل صاحب کی اس کاوش پر ان کو خراجِ تحسین پیش کرتا ھوں ...... جنہوں نے اپنی محنت سے ادب کے فروغ کیلئے گراں قدر خدمات پیش کی ہیں وہ خود بھی ایک خوش اسلوب شاعر ھیں اور شاعری کا ایک معتبر حوالہ ہیں ....... انھوں نے ادب میں نئے چہروں کو روشناس کرانے کا جو مقصد دل میں پیدا کیا ھے دعا ھے کہ اللہ ربّ العزّت انھیں اس مقصد میں کامیابی دے اور انکی محنتوں کو بار آور فرمائے....... آمین
ReplyDelete