Zubyr Qaisar

نام : زبیر قیصر
تاریخ پیدائش: 7 مئی 1975
شہر: باہتر ضلع اٹک
شعری سفر: 2000 سے آغاز
پہلی کتاب : ابھی کچھ کہہ نہیں سکتے..2012
دوسری کتاب : آواز..زیرِ اشاعت



کوئی دلیل مرے جرم کی ،سند ،مرے  دوست
بے اعتباری کی ہوتی ہے کوئی حد مرے دوست

 ابھی تلک تری الجھن سلجھ نہیں  رہی ہے
بگڑ چکے ہیں مرے دیکھ ، خال و خد مرے دوست

 بھلے ڈبو دے مجھے میرا  چلو بھر  پانی
 کہ مانگنی نہیں تجھ سے کوئی مدد مرے دوست

 یہ آئینےمیں سنورنا تجھے مبارک ہو
طلب نہیں تو بھلے خاک ہو رسد مرے دوست

زمیں سے رکھنا ہی پڑتا ہے رابطہ قیصر
شجر کا اونچا ہو جتنابھی چاہے قد مرے دوست

*************

تو پھر یہ طے ہے کہ دونوں میں رابطہ رہے گا
تمام عمر محبت کا سلسلہ رہے گا

 سمے کی دھول سے اٹ بھی گیا یہ عکس اگر
تمھارے نام کا ہاتھوں میں آئینہ رہے گا

عجیب اب کے سفر پاؤں سے بندھا ہوا ہے
کہ رستہ کٹ بھی گیا پھر بھی فاصلہ رہے گا

ہٹا بھی دی گئی تصویر تیری دیکھنا تم
مجھے یقیں ہے وہ دیوار دیکھتا رہے گا

کیا ہے جرم تو پھراعتراف کیوں نہ کروں
سزا زمانے سے دل خود ہی پوچھتا رہے گا

میں نفرتوں کی صلیبوں پہ کھینچا جاؤں گا
ہر عشق والا مرا دار چومتا رہے گا

یہ دشت ِ خواب عجب ایک آئینہ خانہ
کہ جو بھی آیا یہاں خود کو دیکھتا رہے گا

یہ دیکھنا ہے وہ کب تک چرائے گا نظریں
ہمارا نام تو دیوار پر لکھا رہے گا

 ابھی تو کہتا ہے دیوانے کی یہ باتیں ہیں 
وہ میرے شعر مرے بعد چومتا رہے گا

تمھارے بعد خبر دل کے موسموں کی مجھے
کوئی نہ کوئی یہاں پیڑ سوکھتا رہے گا

یہ ایک خواب سلامت رہے مرے مولا
یہ آئینہ ذرا ٹوٹا تو ٹوٹتا رہے گا

*************

کس خرابے میں یہ انسان چلے آتے ہیں
زندگی کرنے کو نادان چلے آتے ہیں

تم مجھے رہ سےہٹاؤ گے تو پچھتاو گے
میرے سائے میں تو طوفان چلے آتے ہیں

جس طرف جلوہ نما ہوتا ہے وہ، سارے لوگ
آئنے تھام کے حیران چلے آتے ہیں

دردو غم اب مجھے تنہا نہیں ہونے دیتے
تیرے جاتے ہی یہ مہمان چلے آتے ہیں

ہنس رہا ہوں کہ مری پیروی میں دشت کی سمت
لوگ انجام سے انجان چلے آتے ہیں

*************

اگر نہ ہوگاکبھی اپنا رابطہ , طے ہے
تو لگ رہا ہے محبت کا مرحلہ طے ہے

ہر ایک سانس پہ تاوان کس کو بھرنا جب
بشر کے ساتھ خدا کا معاھدہ طے ہے

کہاں پہ خاک اڑانی ہے ، بیٹھنا ہے کہاں
مسافرانِ محبت کا راستہ طے ہے

تمام عمر ترا ہجر مجھ کو سہنا ہے
کہ آسمان و زمیں کا یہ فاصلہ طے ہے

اندھیری رات سے کیسا گلہ زبیر کہ اب
دیے کے ساتھ ہوا کا معاملہ طے ہے

*************

لوگ الجھتے رہے مداری سے
سانپ نکلا نہیں پٹاری سے

*************

مصرعء تر نکالنا ہے مجھے
اپنے لفظوں کی آبیاری سے

*************

بیچ دیں گے سبھی خسارے تجھے
یہ جو لہجے ہیں کاروباری سے

*************

ہم بھی ایک لے کے بن گئے موجد
اپنے اندر کی آہ وزاری سے

*************

اپنے دشمن پہ ہے نگاہ مری
مجھ کو خطرہ ہےبس حواری سے

*************

تُو مرا انتظار تھا ہی نہیں
یہ کھلا دل کی بیقراری سے

*************

زندگی کا پتہ ملا قیصر
اپنے زخموں کی اس شماری سے

*************

زبیر قیصر

2 comments: