Friday 26 February 2016

jo dard tu ne dia har khushi se barh kar hai : poet syed ali salman

سید علی سلمان


جو درد تو نے دیا ہر خوشی سے بڑھ کر ہے
تری عطا تو مری تشنگی سے بڑھ کر ہے

ترے فراق کا دکھ کیا ہے اس کی شدت کیا
بس ایک کرب ہے جو خود کشی سے بڑھ کر ہے

وہ بات کیسے چھپائیں جو چھپ نہیں سکتی
بتائیں کیسے جو شرمندگی سے بڑھ کر ہے

تُو مہر و ماہ کا قائل ہے میں ترا قائل
کہ تیرا نور ہر اک روشنی سے بڑھ کر ہے

کمی تو کچھ بھی نہیں پھر بھی سوچتا ہوں میں
تری کمی مجھے ہر اک کمی سے بڑھ کر ہے

میں اس کے سامنے ہتھیار ڈال سکتا ہوں
یہ دشمنی ہے تو پھر دوستی سے بڑھ کر ہے

فنا کے بعد بھی ان سے ملیں گے ہم سلمان
کہ ان سے پیار ہمیں زندگی سے بڑھ کر ہے

سید علی سلمان

*************

Saturday 20 February 2016

Ansu rotay hain barish main : poetess rida fatima

آنسو روتے ہیں بارش میں
سپنے بہتے ہیں بارش میں

ٹوٹے گھر کے باسی اب بھی
صدمے سہتے ہیں بارش میں

کومل جذبے رکھنے والے
پاگل ہوتے ہیں بارش میں

پورے دل میں رہنے والے
آدھے رہتے ہیں بارش میں

سندر پھولوں کی بستی میں
موتی اگتے ہیں بارش میں

جیون کو اپنانے والے
باغی لگتے ہیں بارش میں

اوروں کے دکھ چننے والے
درد پروتے ہیں بارش میں

زندہ ہم کو دِکھنے والے
کیونکر مرتے ہیں بارش میں

اب تک مجھ کو ملنے والے
غم کیوں رستے ہیں بارش میں

ردا فاطمہ

*************

meri tham tham javay sans piya : poet zain shakeel

زین شکیل


مری تھم تھم جاوے سانس پیا
مری آنکھ کو ساون راس پیا

تجھے سن سن دل میں ہوک اٹھے
ترا لہجہ بہت اداس پیا

ترے پیر کی خاک بنا ڈالوں
مرے تن پر جتنا ماس پیا

تُو ظاہر بھی، تُو باطن بھی 
ترا ہر جانب احساس پیا

تری نگری کتنی دور سجن
مری جندڑی بہت اداس پیا

میں چاکر تیری ازلوں سے
تُو افضل، خاص الخاص پیا

مجھے سارے درد قبول سجن
مجھے تیری ہستی راس پیا

زین شکیل

*************

tumhain khonay se darta hon : poet aatif saeed

عاطف سعید



کہا تھا ناں
مجھے تم اِس طرح سوتے ہوئے مت چھوڑ کر جانا
مجھے بےشک جگا دینا
بتا دینا
محبت کے سفر میں ساتھ میرے چل نہیں سکتیں
تمہیں رستہ بدلنا ہے
مری حد سے نکلنا ہے
تمھیں کس بات کا ڈر تھا
تمھیں جانے نہیں دیتا
کہیں پہ قید کر لیتا
ارے پگلی
محبت کی طبیعت میں زبردستی نہیں ہوتی
جسےرستہ بدلنا ہو، اُسے رستہ بدلنے سے
جسے حد سے نکلنا ہو، اُسے حد سے نکلنے سے
نہ کوئی روک پایا ہے
نہ کوئی روک پائے گا
تمھیں کس بات کا ڈر تھا
مجھے بے شک جگا دیتیں
میں تم کو دیکھ ہی لیتا
تمھیں کوئی دعا دیتا
کم از کم یوں تو نہ ہوتا
مرے ساتھی حقیقت ہے
تمہارے بعد کھونے کے لئے کچھ بھی نہیں باقی
مگر کھونے سے ڈرتا ہوں
میں اب سونے سے ڈرتا ہوں

عاطف سعید

*************



Friday 19 February 2016

kya zarurat hai hello haye ki : poetess haya ghazal

حیاء غزل


کیا ضرورت ہے ہیلو  ہا ئے کی
میں نہیں ہوں تمہارے پائے کی

دھوپ کا لطف لینے والی ہوں
مجھکو خواہش نہیں ہے سائے کی

غا ئبا نہ  شریک  کر کے تمہیں
ایک چسکی بھری ہے چائے کی

اک محبت نہیں  و گرنہ  تو
گھر میں ہر چیز ہے کرائے کی

مشورہ مفت جو  د یا ہے   اسے
کوئ وقعت نہیں ہے را ئے کی

مستقل کس کا  ہے قیام یہاں
دنیا بھی ہے جگہ  سرائے کی

حیاء غزل

*************


Tuesday 16 February 2016

milay jo muskura kr usko apna maan letay hain : poet mohammad yousaf

محمد یوسف


ملے جو مسکرا کر اس کو اپنا مان لیتے ہیں
دلاسہ دے کوئی اس کو مسیحا جان لیتے ہیں

طبیعت نہ ہو مائل جس پہ وہ ہر گز نہیں کرتے
مگر کر کے دکھاتے ہیں جو دل میں ٹھان لیتے ہیں

کوئی خوش ہی نہیں ہے جب ہمارا فائدہ کر کے
تو پھر ہم کیوں کسی کا مفت میں احسان لیتے ہیں

کبھی جو اپنے پیاروں پہ کوئی الزام آ جائے
تو ہم ایسے میں مجرم خود کو ہی گردان لیتے ہیں

 ہدف اپنی نگاہوں سے کوئی بھی بچ نہیں پاتا
خطا ہوتا نہیں جس پر نشانہ تان لیتے ہیں

نہیں کرتے کبھی حالات کا شکوہ، گلہ یوسف
جو مل جائے اسی کو بس غنیمت جان لیتے ہیں

محمد یوسف

*************

Wednesday 10 February 2016

main gardaab e iseyan ka maara hon ya rab : poet khalil rehman khalil

محمد خلیل الرحمٰن خلیل


میں گردابِ عصیاں کا مارا ہوں یا رب
مگر نام تیرا ہی لیتا ہوں یا رب

مجھے پھر دکھا دے وہ پیارا سا کعبہ
اگرچہ گنہگار بندہ ہوں یا رب

بہت بے بسی نے مجھے آ لیا ہے
بنا بے کسی کا میں چہرہ ہوں یا رب

مرا ناتواں دل ہوا غم سے بوجھل
فقط مانگتا اک سہارا ہوں یارب

ترے نام لیوا پہ آلام بھاری
عطا کر سکوں اب میں ہارا ہوں یا رب

گناہوں کی عادت سے آیا ہوں عاجز
ہدایت عطا کر میں اندھا ہوں یارب

مجھے در بدر کا نہ محتاج کرنا
تجھے چاہتا ہوں میں تیرا ہوں یارب

طلب میں بسر ہو جو باقی ہے رہتی
بڑا بحرِ عصیاں میں ڈوبا ہوں یارب

خلیل اب تو رو رو کے کہہ دے خدا سے
مجھے بخش دے در پہ آیا ہوں یارب

محمد خلیل الرحمٰن خلیل

*************

Wednesday 27 January 2016

deevangi ka hum pe jo ilzaam hai to ho : poet ishtiaq zain

اشتیاق زین


دیوانگی کا ہم پہ جو الزام ہے، تو ہو
چرچا یہ ہر زباں پہ سرِ عام ہے، تو ہو

تقدیسِ عشق میں ہمیں منظور تشنگی
لبریز خواہشوں کا اگر جام ہے، تو ہو

لکھا ہے جو نصیب میں، ملتا ہے بس وہی
بے نام گر حیات کا انجام ہے، تو ہو

مجھ کو عزیز جاں سے ہیں تیرے یہ رنج و غم
نغمہ جو اب خوشی کا سرِ بام ہے، تو ہو

سینچیں گے ہر کلی کو جگر کے لہو سے ہم
گلشن میں گر جو کام یہ بدنام ہے، تو ہو

بدلوں گا خو وفا کی، کسی طور بھی نہ میں
شامل جو عاصیوں میں مرا نام ہے، تو ہو

اے یارِ خوش خرام، تری کج روی کی خیر
میرے لئے یہ موجبِ آلام ہے، تو ہو

گر چل پڑے ہیں زینؔ تو رکنا فضول ہے
اب راستے میں غم کی اگر شام ہے، تو ہو

اشتیاق زین

*************

Tuesday 26 January 2016

meri mitti ko de rutba isay tu keemiya kar de : poetess jeena qureshi


میری مٹی کو دے رتبہ اسے تو کیمیا کر دے 
ابھی تو عین پر ہوں میں ، مجھے تو انتہا کر دے

چڑھاؤں کوئی نذرانہ کہاں اوقات میری ہے 
مری پلکوں سے آنسو چن ، کوئی جود و سخا کر دے

مجھے جو ہجر بخشا ہے تو کچھ توفیق بھی دے دے 
تماشا ہی نہ ہو جاؤں مجھے صبر و رضا کر دے 

ارادت مند ہوں تیری تری چوکھٹ پہ بیٹھی ہوں 
دکھا جلوہ مجھے مرشد مری ہستی فنا کر دے 

ملے لذت جبیں کو پھر جو میں مٹی پہ سررکھ دوں 
دیا جو درد ہے تو نے تو ہی اس کی دوا کر دے 

ابھی تو بارگاہ -عشق میں سولی بھی چڑھنا ہے 
لگا مجھ پر کوئی فتویٰ مجھے مجھ سے جدا کر دے

جینا قریشی

*************

Thursday 21 January 2016

muhabbat pesh ghar ghar kar raha hon : poet ain umar

عین عمر



محبت پیش گھر گھر کررہا ہوں
میں تقلیدِ قلندر کر رہا ہوں

کہ دو گز کی عمارت کے لیے میں
اکٹھے اینٹ پتھر کر رہا ہوں

اداکاری اداکاروں کا فن ہے
مگر ان سے میں بہتر کر رہا ہوں

میں اسکو چھوڑ کر اک داستاں میں
حساب اپنا برابر کر رہا ہوں

یقیناََ کر چکی ہوگی زمیں بھی
ستم جو جو زمیں پر کر رہا ہوں

عین عمر

*************


sans lena mahaal hai saien : poet sajid javed sajid

ساجد جاوید ساجد


سانس  لینا  محال   ہے  سائیں
عشق جاں  کا  وبال  ہے  سائیں

مجھ  کو  سپنا  عجیب   آتا   ہے
خود کشی بھی حلال ہے سائیں

آنکھیں اس کی غزال جیسی ہیں
زلف ریشم  کا  جال  ہے  سائیں

قیس لیلیٰ  پہ مر  مٹا  دل  سے
آپ    اپنی   مثال    ہے   سائیں

مجھ سے نظریں چُرا رہا ہے  دل
غم  میں  اتنا  نڈھال  ہے  سائیں

روپ  رب  کا  لگے ہے مکھڑا وہ
اس کی صورت کمال  ہے  سائیں

عشق  جس   پر   تمام   ہوتا   ہے
ایک    حبشی   بلالؓ   ہے   سائیں

ساجد جاوید ساجد

*************


to phir yeh teh hai k dono man rabta rahay ga : poet zubyr qaisar

زبیر قیصر



تو پھر یہ طے ہے کہ دونوں میں رابطہ رہے گا
تمام عمر محبت کا سلسلہ رہے گا

 سمے کی دھول سے اٹ بھی گیا یہ عکس اگر
تمھارے نام کا ہاتھوں میں آئینہ رہے گا

عجیب اب کے سفر پاؤں سے بندھا ہوا ہے
کہ رستہ کٹ بھی گیا پھر بھی فاصلہ رہے گا

ہٹا بھی دی گئی تصویر تیری دیکھنا تم
مجھے یقیں ہے وہ دیوار دیکھتا رہے گا

کیا ہے جرم تو پھراعتراف کیوں نہ کروں
سزا زمانے سے دل خود ہی پوچھتا رہے گا

میں نفرتوں کی صلیبوں پہ کھینچا جاؤں گا
ہر عشق والا مرا دار چومتا رہے گا

یہ دشت ِ خواب عجب ایک آئینہ خانہ
کہ جو بھی آیا یہاں خود کو دیکھتا رہے گا

یہ دیکھنا ہے وہ کب تک چرائے گا نظریں
ہمارا نام تو دیوار پر لکھا رہے گا

 ابھی تو کہتا ہے دیوانے کی یہ باتیں ہیں 
وہ میرے شعر مرے بعد چومتا رہے گا

تمھارے بعد خبر دل کے موسموں کی مجھے
کوئی نہ کوئی یہاں پیڑ سوکھتا رہے گا

یہ ایک خواب سلامت رہے مرے مولا
یہ آئینہ ذرا ٹوٹا تو ٹوٹتا رہے گا

زبیر قیصر

*************


Tuesday 19 January 2016

itni veeran zindgi meri : poet rehman raja

رحمان راجہ


اتنی ویران زندگی میری
رات میں جیسے ہو گلی میری

تھورا ہی دور تھا میں منزل سے
اور پھر رُک گئی گھڑی میری

کیا کہا اُس نے ؟ بس وہ میری ہے؟
سچ بتاو نا ؟ واقعی میری؟

پاوں رکھو جو باغ میں تم بھی
کھل اُٹھے گی یہ ہر کلی میری

رحمان راجہ

*************



bas tawajja hi ki nahi jati : poet yawar azeem

یاور عظیم



بس توجّہ ہی کی نہیں جاتی
خامشی کب سُنی نہیں جاتی

خواب کی نشریات آنے تک
آنکھ کی سنسنی نہیں جاتی

وقت کی کوکھ میں اندھیرا ہے
روشنی کیوں جنی نہیں جاتی

جب ہوائیں مرے موافق ہوں
مجھ سے پرواز کی نہیں جاتی

مامتا کے محل میں رہتا ہوں
میری شہزادگی نہیں جاتی

یہ محبت ہے زائد المیعاد
زہر لگتی ہے، کی نہیں جاتی

دُھوپ شرمندہ ہو گئی یاورؔ 
پُھول کی تازگی نہیں جاتی

یاور عظیم

*************



yeh baat alag hai sab majzoob samjhtay hain : poet sada hussain sada

صدا حسین صدا



یہ بات الگ ہے سب مجذوب سمجھتے ہیں
مطلب کے تعلق کو ہم خوب سمجھتے ہیں

دنیا ہو کہ جنت  ہے اِنعام انہی کا ہی
محبوبِ خدا کو جو محبوب سمجھتے ہیں

اغیار سے بھی بد تر ہیں رُوپ میں اپنوں کی
جو لوگ شریعت کو معیوب سمجھتے ہیں

تم درس محبت کا دو جا کے کہیں اور ہی
ہم عشق کے مارے ہر اسلوب سمجھتے ہیں

ہر شعر میں ڈھالا ہے کچھ ایسے ترا پیکر
اب لوگ تجھے مجھ سے منسوب سمجھتے ہیں

تم لاکھ دلیلیں دو جدّت کی صداؔ پر ہم
تہذیب کے باغی کو آشوب سمجھتے ہیں

صدا حسین صدا

*************


main sach kahon pas e deevar jhoot boltay hain : imran aami

عمران عامی



میں سچ کہوں پس ِ دیوار جھوٹ بولتے ہیں 
مرے خلاف مرے یار جھوٹ بولتے ہیں 

ملی ہے جب سے اِنہیں بولنے کی آزادی 
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں 

میں مر چکا ہوں مجھے کیوں یقیں نہیں آتا 
تو کیا یہ میرے عزادار جھوٹ بولتے ہیں

یہ شہر ِعشق بہت جلد اُجڑنے والا ہے 
دُکان دار و خریدار جھوٹ بولتے ہیں 

بتا رہی ہے یہ تقریب ِ منبر و محراب 
کہ متقی و ریاکار جھوٹ بولتے ہیں 

میں سوچتاہوں کہ دم لیں تو میں اِنہیں ٹوکوں
مگر یہ لوگ لگاتار جھوٹ بولتے ہیں 

ہمارے شہر میں عامی منافقت ہے بہت
مکین کیا، در و دیوار جھوٹ بولتے ہیں

عمران عامی

*************


gham se do chaar ho chuka hon main : poet haroon afghan

ہارون افغان



غم سے دو چار ہو چکا ہوں میں
سب سے بی زار ہو چکا ہوں میں

کو بہ کو ڈھونڈتا ہوں میں اس کو
در بہ در خوار ہو چکا ہوں میں

کوئی تو حال پوچھنے آوے
سخت بیمار ہو چکا ہوں میں

دوست اب مجھ سے جو نہیں ملتے
ان پہ کیا بار ہو چکا ہوں میں ؟

پہلے میں بھی گلاب سنبل تھا
اور اب خار ہو چکا ہوں میں

ہارون افغان

*************


Monday 18 January 2016

jungle ki khilafat jo muje sonp gya hai : poet umair qureshi

عمیر قریشی



جنگل کی خلافت جو مجھے سونپ گیا ہے
وہ شخص محبت میں قلندر بھی رہا ہے

بگڑے ہوئے خالات ہیں گردش میں ستارے
ابتک جو بچاتی رہی وہ ماں کی دعا ہے

لے جا کے میں دیکھوں گا وہاں اپنا سفینہ
سورج یہ سمندر میں کہاں ڈوب رہا ہے

خوشبو سے معطر ہے مرا پورا سراپا 
اک شخص کی قربت نے مجھے پھول کیا ہے

وہ حلقہءِ احباب میں شامل بھی نہیں تھا
جس شخص نے مشکل میں مرا ساتھ دیا ہے

مرتے ہوئے سائے نے مجھے اتنا بتایا
گرتی ہوئی دیوار نے یہ کام کیا ہے

عمیر قریشی

*************


hamesha dard ki shiddat bahaal rakhta tha : poetess shahnaz shazi

شہناز شازی


ہمیشہ درد کی شدت بحال رکھتا ہے
وہ دل دکھانے میں ایسا کمال رکھتا ہے

شگفتگی کبھی ضرب المثال تھی اب تو
تمھارے ہجر کا موسم نڈھال رکھتا ہے

اگرچہ اپنی زباں سے وہ کچھ نہیں کہتا
مگر نگاہ میں کتنے سوال رکھتا ہے

جو ہمسفر ہوں تو ہر بات مشترک ٹھہری
شریکِ لطف شریکِ ملال رکھتا ہے

تمھارے قرب کا احساس ہی تو ہے جاناں
جو مشکلات میں مجھ کو سنبھال رکھتا ہے

جدائیوں کی تپش میں مدام کیوں نہ جلے
انا کی آگ جو سینے میں پال رکھتا ہے

خودی کا پاس کروں یا تمھارے پاس آؤں
دلوں کا فیصلہ الجھن میں ڈال رکھتا ہے

حد کمال کو منزل گماں نہ کر شازی
کمال خود بھی تو خوفِ زوال رکھتا ہے

شہناز شازی

*************




yeh dunia dari bhi kitni ajeeb shay hai miyan : poet dr. waqar khan

ڈاکٹر وقار خان


 یہ دنیا داری بھی کتنی عجیب شے ہے میاں  
 خدا کو یاد کیا جاتا ہے مفاد کے وقت  
  
یہ میرے شعر ہمیشہ ہوئے نظر انداز 
 بس اک غرور بھری خامشی تھی داد کے وقت

تجھے یہ لگتا ہے کہ میرا پیار جھوٹا ہے ؟
 خدا بھی یاد نہیں ہوتا تیری یاد کے وقت

بس ایک خون میرے سر پہ ہو چکا تھا سوار 
 تمیزِ مشرک و مومن نہ تھی جہاد کے وقت 

ہمارا پیار تو ہونا تھا شک کی نذر وقار
 کہ رہ گیا تھا خلاء کوئی اعتماد کے وقت  

ڈاکٹر وقار خان

*************