میری مٹی کو دے رتبہ اسے تو کیمیا کر دے
ابھی تو عین پر ہوں میں ، مجھے تو انتہا کر دے
چڑھاؤں کوئی نذرانہ کہاں اوقات میری ہے
مری پلکوں سے آنسو چن ، کوئی جود و سخا کر دے
مجھے جو ہجر بخشا ہے تو کچھ توفیق بھی دے دے
تماشا ہی نہ ہو جاؤں مجھے صبر و رضا کر دے
ارادت مند ہوں تیری تری چوکھٹ پہ بیٹھی ہوں
دکھا جلوہ مجھے مرشد مری ہستی فنا کر دے
ملے لذت جبیں کو پھر جو میں مٹی پہ سررکھ دوں
دیا جو درد ہے تو نے تو ہی اس کی دوا کر دے
ابھی تو بارگاہ -عشق میں سولی بھی چڑھنا ہے
لگا مجھ پر کوئی فتویٰ مجھے مجھ سے جدا کر دے
جینا قریشی
*************
No comments:
Post a Comment