زبیر قیصر
تو پھر یہ طے ہے کہ دونوں میں رابطہ رہے گا
تمام عمر محبت کا سلسلہ رہے گا
سمے کی دھول سے اٹ بھی گیا یہ عکس اگر
تمھارے نام کا ہاتھوں میں آئینہ رہے گا
عجیب اب کے سفر پاؤں سے بندھا ہوا ہے
کہ رستہ کٹ بھی گیا پھر بھی فاصلہ رہے گا
ہٹا بھی دی گئی تصویر تیری دیکھنا تم
مجھے یقیں ہے وہ دیوار دیکھتا رہے گا
کیا ہے جرم تو پھراعتراف کیوں نہ کروں
سزا زمانے سے دل خود ہی پوچھتا رہے گا
میں نفرتوں کی صلیبوں پہ کھینچا جاؤں گا
ہر عشق والا مرا دار چومتا رہے گا
یہ دشت ِ خواب عجب ایک آئینہ خانہ
کہ جو بھی آیا یہاں خود کو دیکھتا رہے گا
یہ دیکھنا ہے وہ کب تک چرائے گا نظریں
ہمارا نام تو دیوار پر لکھا رہے گا
ابھی تو کہتا ہے دیوانے کی یہ باتیں ہیں
وہ میرے شعر مرے بعد چومتا رہے گا
تمھارے بعد خبر دل کے موسموں کی مجھے
کوئی نہ کوئی یہاں پیڑ سوکھتا رہے گا
یہ ایک خواب سلامت رہے مرے مولا
یہ آئینہ ذرا ٹوٹا تو ٹوٹتا رہے گا
زبیر قیصر
*************
No comments:
Post a Comment