یاور عظیم
بس توجّہ ہی کی نہیں جاتی
خامشی کب سُنی نہیں جاتی
خواب کی نشریات آنے تک
آنکھ کی سنسنی نہیں جاتی
وقت کی کوکھ میں اندھیرا ہے
روشنی کیوں جنی نہیں جاتی
جب ہوائیں مرے موافق ہوں
مجھ سے پرواز کی نہیں جاتی
مامتا کے محل میں رہتا ہوں
میری شہزادگی نہیں جاتی
یہ محبت ہے زائد المیعاد
زہر لگتی ہے، کی نہیں جاتی
دُھوپ شرمندہ ہو گئی یاورؔ
پُھول کی تازگی نہیں جاتی
یاور عظیم
*************
No comments:
Post a Comment