سید علی سلمان
جو درد تو نے دیا ہر خوشی سے بڑھ کر ہے
تری عطا تو مری تشنگی سے بڑھ کر ہے
ترے فراق کا دکھ کیا ہے اس کی شدت کیا
بس ایک کرب ہے جو خود کشی سے بڑھ کر ہے
وہ بات کیسے چھپائیں جو چھپ نہیں سکتی
بتائیں کیسے جو شرمندگی سے بڑھ کر ہے
تُو مہر و ماہ کا قائل ہے میں ترا قائل
کہ تیرا نور ہر اک روشنی سے بڑھ کر ہے
کمی تو کچھ بھی نہیں پھر بھی سوچتا ہوں میں
تری کمی مجھے ہر اک کمی سے بڑھ کر ہے
میں اس کے سامنے ہتھیار ڈال سکتا ہوں
یہ دشمنی ہے تو پھر دوستی سے بڑھ کر ہے
فنا کے بعد بھی ان سے ملیں گے ہم سلمان
کہ ان سے پیار ہمیں زندگی سے بڑھ کر ہے
سید علی سلمان
*************