شعیب مظہرؔ
دل نے کھایا جو وار شیشے کا
چیخ اٹھا یہ جار شیشے کا
مَیں نے پتھر کے گھر میں دیکھا ہے
سارا نقش و نگار شیشے کا
راہ کے سنگ بھی ہیں نوکیلے
اور ہے راہوار شیشے کا
ساتھ چلتے تو کس طرح چلتے؟
لوگ پتھر کے پیار شیشے کا
تم نے دل میں مجھے اتارا ہے
کیا مگر اعتبار شیشے کا؟
بانہیں میرے گلے میں ڈالو ناں
اچھا لگتا ہے ہار شیشے کا
ایک پتھر تباہ کر دے گا
ہائے یہ کاروبار شیشے کا
ساری بستی نظر میں ہے مظہرؔ
میرا گھر ہے کہ غار شیشے کا؟
شعیب مظہر
*************
No comments:
Post a Comment