Wednesday 27 January 2016

deevangi ka hum pe jo ilzaam hai to ho : poet ishtiaq zain

اشتیاق زین


دیوانگی کا ہم پہ جو الزام ہے، تو ہو
چرچا یہ ہر زباں پہ سرِ عام ہے، تو ہو

تقدیسِ عشق میں ہمیں منظور تشنگی
لبریز خواہشوں کا اگر جام ہے، تو ہو

لکھا ہے جو نصیب میں، ملتا ہے بس وہی
بے نام گر حیات کا انجام ہے، تو ہو

مجھ کو عزیز جاں سے ہیں تیرے یہ رنج و غم
نغمہ جو اب خوشی کا سرِ بام ہے، تو ہو

سینچیں گے ہر کلی کو جگر کے لہو سے ہم
گلشن میں گر جو کام یہ بدنام ہے، تو ہو

بدلوں گا خو وفا کی، کسی طور بھی نہ میں
شامل جو عاصیوں میں مرا نام ہے، تو ہو

اے یارِ خوش خرام، تری کج روی کی خیر
میرے لئے یہ موجبِ آلام ہے، تو ہو

گر چل پڑے ہیں زینؔ تو رکنا فضول ہے
اب راستے میں غم کی اگر شام ہے، تو ہو

اشتیاق زین

*************

Tuesday 26 January 2016

meri mitti ko de rutba isay tu keemiya kar de : poetess jeena qureshi


میری مٹی کو دے رتبہ اسے تو کیمیا کر دے 
ابھی تو عین پر ہوں میں ، مجھے تو انتہا کر دے

چڑھاؤں کوئی نذرانہ کہاں اوقات میری ہے 
مری پلکوں سے آنسو چن ، کوئی جود و سخا کر دے

مجھے جو ہجر بخشا ہے تو کچھ توفیق بھی دے دے 
تماشا ہی نہ ہو جاؤں مجھے صبر و رضا کر دے 

ارادت مند ہوں تیری تری چوکھٹ پہ بیٹھی ہوں 
دکھا جلوہ مجھے مرشد مری ہستی فنا کر دے 

ملے لذت جبیں کو پھر جو میں مٹی پہ سررکھ دوں 
دیا جو درد ہے تو نے تو ہی اس کی دوا کر دے 

ابھی تو بارگاہ -عشق میں سولی بھی چڑھنا ہے 
لگا مجھ پر کوئی فتویٰ مجھے مجھ سے جدا کر دے

جینا قریشی

*************

Thursday 21 January 2016

muhabbat pesh ghar ghar kar raha hon : poet ain umar

عین عمر



محبت پیش گھر گھر کررہا ہوں
میں تقلیدِ قلندر کر رہا ہوں

کہ دو گز کی عمارت کے لیے میں
اکٹھے اینٹ پتھر کر رہا ہوں

اداکاری اداکاروں کا فن ہے
مگر ان سے میں بہتر کر رہا ہوں

میں اسکو چھوڑ کر اک داستاں میں
حساب اپنا برابر کر رہا ہوں

یقیناََ کر چکی ہوگی زمیں بھی
ستم جو جو زمیں پر کر رہا ہوں

عین عمر

*************


sans lena mahaal hai saien : poet sajid javed sajid

ساجد جاوید ساجد


سانس  لینا  محال   ہے  سائیں
عشق جاں  کا  وبال  ہے  سائیں

مجھ  کو  سپنا  عجیب   آتا   ہے
خود کشی بھی حلال ہے سائیں

آنکھیں اس کی غزال جیسی ہیں
زلف ریشم  کا  جال  ہے  سائیں

قیس لیلیٰ  پہ مر  مٹا  دل  سے
آپ    اپنی   مثال    ہے   سائیں

مجھ سے نظریں چُرا رہا ہے  دل
غم  میں  اتنا  نڈھال  ہے  سائیں

روپ  رب  کا  لگے ہے مکھڑا وہ
اس کی صورت کمال  ہے  سائیں

عشق  جس   پر   تمام   ہوتا   ہے
ایک    حبشی   بلالؓ   ہے   سائیں

ساجد جاوید ساجد

*************


to phir yeh teh hai k dono man rabta rahay ga : poet zubyr qaisar

زبیر قیصر



تو پھر یہ طے ہے کہ دونوں میں رابطہ رہے گا
تمام عمر محبت کا سلسلہ رہے گا

 سمے کی دھول سے اٹ بھی گیا یہ عکس اگر
تمھارے نام کا ہاتھوں میں آئینہ رہے گا

عجیب اب کے سفر پاؤں سے بندھا ہوا ہے
کہ رستہ کٹ بھی گیا پھر بھی فاصلہ رہے گا

ہٹا بھی دی گئی تصویر تیری دیکھنا تم
مجھے یقیں ہے وہ دیوار دیکھتا رہے گا

کیا ہے جرم تو پھراعتراف کیوں نہ کروں
سزا زمانے سے دل خود ہی پوچھتا رہے گا

میں نفرتوں کی صلیبوں پہ کھینچا جاؤں گا
ہر عشق والا مرا دار چومتا رہے گا

یہ دشت ِ خواب عجب ایک آئینہ خانہ
کہ جو بھی آیا یہاں خود کو دیکھتا رہے گا

یہ دیکھنا ہے وہ کب تک چرائے گا نظریں
ہمارا نام تو دیوار پر لکھا رہے گا

 ابھی تو کہتا ہے دیوانے کی یہ باتیں ہیں 
وہ میرے شعر مرے بعد چومتا رہے گا

تمھارے بعد خبر دل کے موسموں کی مجھے
کوئی نہ کوئی یہاں پیڑ سوکھتا رہے گا

یہ ایک خواب سلامت رہے مرے مولا
یہ آئینہ ذرا ٹوٹا تو ٹوٹتا رہے گا

زبیر قیصر

*************


Tuesday 19 January 2016

itni veeran zindgi meri : poet rehman raja

رحمان راجہ


اتنی ویران زندگی میری
رات میں جیسے ہو گلی میری

تھورا ہی دور تھا میں منزل سے
اور پھر رُک گئی گھڑی میری

کیا کہا اُس نے ؟ بس وہ میری ہے؟
سچ بتاو نا ؟ واقعی میری؟

پاوں رکھو جو باغ میں تم بھی
کھل اُٹھے گی یہ ہر کلی میری

رحمان راجہ

*************



bas tawajja hi ki nahi jati : poet yawar azeem

یاور عظیم



بس توجّہ ہی کی نہیں جاتی
خامشی کب سُنی نہیں جاتی

خواب کی نشریات آنے تک
آنکھ کی سنسنی نہیں جاتی

وقت کی کوکھ میں اندھیرا ہے
روشنی کیوں جنی نہیں جاتی

جب ہوائیں مرے موافق ہوں
مجھ سے پرواز کی نہیں جاتی

مامتا کے محل میں رہتا ہوں
میری شہزادگی نہیں جاتی

یہ محبت ہے زائد المیعاد
زہر لگتی ہے، کی نہیں جاتی

دُھوپ شرمندہ ہو گئی یاورؔ 
پُھول کی تازگی نہیں جاتی

یاور عظیم

*************



yeh baat alag hai sab majzoob samjhtay hain : poet sada hussain sada

صدا حسین صدا



یہ بات الگ ہے سب مجذوب سمجھتے ہیں
مطلب کے تعلق کو ہم خوب سمجھتے ہیں

دنیا ہو کہ جنت  ہے اِنعام انہی کا ہی
محبوبِ خدا کو جو محبوب سمجھتے ہیں

اغیار سے بھی بد تر ہیں رُوپ میں اپنوں کی
جو لوگ شریعت کو معیوب سمجھتے ہیں

تم درس محبت کا دو جا کے کہیں اور ہی
ہم عشق کے مارے ہر اسلوب سمجھتے ہیں

ہر شعر میں ڈھالا ہے کچھ ایسے ترا پیکر
اب لوگ تجھے مجھ سے منسوب سمجھتے ہیں

تم لاکھ دلیلیں دو جدّت کی صداؔ پر ہم
تہذیب کے باغی کو آشوب سمجھتے ہیں

صدا حسین صدا

*************


main sach kahon pas e deevar jhoot boltay hain : imran aami

عمران عامی



میں سچ کہوں پس ِ دیوار جھوٹ بولتے ہیں 
مرے خلاف مرے یار جھوٹ بولتے ہیں 

ملی ہے جب سے اِنہیں بولنے کی آزادی 
تمام شہر کے اخبار جھوٹ بولتے ہیں 

میں مر چکا ہوں مجھے کیوں یقیں نہیں آتا 
تو کیا یہ میرے عزادار جھوٹ بولتے ہیں

یہ شہر ِعشق بہت جلد اُجڑنے والا ہے 
دُکان دار و خریدار جھوٹ بولتے ہیں 

بتا رہی ہے یہ تقریب ِ منبر و محراب 
کہ متقی و ریاکار جھوٹ بولتے ہیں 

میں سوچتاہوں کہ دم لیں تو میں اِنہیں ٹوکوں
مگر یہ لوگ لگاتار جھوٹ بولتے ہیں 

ہمارے شہر میں عامی منافقت ہے بہت
مکین کیا، در و دیوار جھوٹ بولتے ہیں

عمران عامی

*************


gham se do chaar ho chuka hon main : poet haroon afghan

ہارون افغان



غم سے دو چار ہو چکا ہوں میں
سب سے بی زار ہو چکا ہوں میں

کو بہ کو ڈھونڈتا ہوں میں اس کو
در بہ در خوار ہو چکا ہوں میں

کوئی تو حال پوچھنے آوے
سخت بیمار ہو چکا ہوں میں

دوست اب مجھ سے جو نہیں ملتے
ان پہ کیا بار ہو چکا ہوں میں ؟

پہلے میں بھی گلاب سنبل تھا
اور اب خار ہو چکا ہوں میں

ہارون افغان

*************


Monday 18 January 2016

jungle ki khilafat jo muje sonp gya hai : poet umair qureshi

عمیر قریشی



جنگل کی خلافت جو مجھے سونپ گیا ہے
وہ شخص محبت میں قلندر بھی رہا ہے

بگڑے ہوئے خالات ہیں گردش میں ستارے
ابتک جو بچاتی رہی وہ ماں کی دعا ہے

لے جا کے میں دیکھوں گا وہاں اپنا سفینہ
سورج یہ سمندر میں کہاں ڈوب رہا ہے

خوشبو سے معطر ہے مرا پورا سراپا 
اک شخص کی قربت نے مجھے پھول کیا ہے

وہ حلقہءِ احباب میں شامل بھی نہیں تھا
جس شخص نے مشکل میں مرا ساتھ دیا ہے

مرتے ہوئے سائے نے مجھے اتنا بتایا
گرتی ہوئی دیوار نے یہ کام کیا ہے

عمیر قریشی

*************


hamesha dard ki shiddat bahaal rakhta tha : poetess shahnaz shazi

شہناز شازی


ہمیشہ درد کی شدت بحال رکھتا ہے
وہ دل دکھانے میں ایسا کمال رکھتا ہے

شگفتگی کبھی ضرب المثال تھی اب تو
تمھارے ہجر کا موسم نڈھال رکھتا ہے

اگرچہ اپنی زباں سے وہ کچھ نہیں کہتا
مگر نگاہ میں کتنے سوال رکھتا ہے

جو ہمسفر ہوں تو ہر بات مشترک ٹھہری
شریکِ لطف شریکِ ملال رکھتا ہے

تمھارے قرب کا احساس ہی تو ہے جاناں
جو مشکلات میں مجھ کو سنبھال رکھتا ہے

جدائیوں کی تپش میں مدام کیوں نہ جلے
انا کی آگ جو سینے میں پال رکھتا ہے

خودی کا پاس کروں یا تمھارے پاس آؤں
دلوں کا فیصلہ الجھن میں ڈال رکھتا ہے

حد کمال کو منزل گماں نہ کر شازی
کمال خود بھی تو خوفِ زوال رکھتا ہے

شہناز شازی

*************




yeh dunia dari bhi kitni ajeeb shay hai miyan : poet dr. waqar khan

ڈاکٹر وقار خان


 یہ دنیا داری بھی کتنی عجیب شے ہے میاں  
 خدا کو یاد کیا جاتا ہے مفاد کے وقت  
  
یہ میرے شعر ہمیشہ ہوئے نظر انداز 
 بس اک غرور بھری خامشی تھی داد کے وقت

تجھے یہ لگتا ہے کہ میرا پیار جھوٹا ہے ؟
 خدا بھی یاد نہیں ہوتا تیری یاد کے وقت

بس ایک خون میرے سر پہ ہو چکا تھا سوار 
 تمیزِ مشرک و مومن نہ تھی جہاد کے وقت 

ہمارا پیار تو ہونا تھا شک کی نذر وقار
 کہ رہ گیا تھا خلاء کوئی اعتماد کے وقت  

ڈاکٹر وقار خان

*************


dua : poetess arwa sajjal

دعا
خدا وندا !
عطا حرف سخن کر وہ
کہ میں وہ لفظ لکھ پاؤں
محرما کم سخن کو جو
جکڑ لیں اپنے پنجے میں 
جو ہوں اس روح کا ساحر
اگر وہ دائرے سے باہر جھانکے تو
وہ تحریر اسکے پاءوں کی
زنجیر بن جائے
بھلا کے ساری دنیا کو
ع-ش-ق کی---یا رب
سبھی رمزیں سمجھ پائے
فقط میرا وہ ہو پائے

اروی سجل

*************

dil ne khaya jo vaar sheshay ka : poet shoaib mazhar

شعیب مظہرؔ



دل نے کھایا جو وار شیشے کا
چیخ اٹھا یہ جار شیشے کا

مَیں نے پتھر کے گھر میں دیکھا ہے
سارا نقش و نگار شیشے کا

راہ کے سنگ بھی ہیں نوکیلے
اور ہے راہوار شیشے کا

ساتھ چلتے تو کس طرح چلتے؟
لوگ پتھر کے پیار شیشے کا

تم نے دل میں مجھے اتارا ہے
کیا مگر اعتبار شیشے کا؟

بانہیں میرے گلے میں ڈالو ناں
اچھا لگتا ہے ہار شیشے کا

ایک پتھر تباہ کر دے گا
ہائے یہ کاروبار شیشے کا

ساری بستی نظر میں ہے مظہرؔ
میرا گھر ہے کہ غار شیشے کا؟


شعیب مظہر

*************


mujh pe kesa yeh waqt aya hai : poet saram raja

سارم راجا



مجھ پہ کیسا یہ وقت آیا ہے
دل بھی اپنا نہیں پرایا ہے

اپنے ہاتھوں سے ہی کمایا ہے
آج تک جو بھی دکھ اٹھایا ہے

دن کو سائے سے ڈرنے والی نے
شب کے پچھلے پہر بلایا ہے 

خوش نہیں ہے مرے بنا تو بھی
میرے دل نے مجھے بتایا ہے

میں تو اس کو ولی سمجھتا ہوں 
جس نے اپنا سراغ پایا ہے


سارم راجا

*************


toot kar roya tha pehle muskuraya baad main : poet danish hayat

دانش حیات



ٹوٹ کر رویا تھا پہلے مسکرایا بعد میں
پہلے سر پر زخم ابھرا سنگ آیا بعد میں 

میں نے تو اس سفر کا آغاز ہی الٹا کیا
پہلے تیرا ہجر جھیلا، وصل پایا بعد میں

یہ محبت کی کرامت ہے کہ میرے ہاتھ پر 
پہلے تیرا نقش ابھرا نام آیا بعد میں

اک حسیں تھا پہلے اس نے لوگ پاگل کردئیے
مقتلوں تک شہر سارا کھینچ لایا بعد میں

اس طرح سے ہار میں نے مان لی تھی دوستو
پہلے میں نے سر کٹایا، سر جھکایا بعد میں

اس کو جب دیکھا تو دانشؔ کیا خبر کہ بزم میں
کون آیا سب سے پہلے کون آیا بعد میں

دانش حیات

*************



ulfat main teri aisay fana ho gya hon main : poet ghulam mujtaba yasir hashmi

غلام مجتبیٰ یاسر ہاشمی


الفت میں تیری ایسے فنا ہو گیا ہوں میں 
خود اپنے آپ سے بھی جدا ہوگیا ہوں میں 

دنیا پکارتی ہے مجھے تیرے نام سے 
میں خود یہ سوچتا ہوں کہ کیا ہوگیا ہوں میں 

مت پوچھ حال کیا ہے ترے ہجر میں مرا 
ہر ایک لمحہ وقفِ دعا ہوگیا ہوں میں 

کیوں میں کسی سے درد کا درماں طلب کروں 
اپنے جنوں کی آپ دوا ہوگیا ہوں میں 

وہ مسکرا کے دیکھنا محفل میں غیر کی 
ہر اک ادا پہ تیری فدا ہو گیا ہوں میں 

چاہوں بھی تو نہ جاسکوں کوچے میں یار کے 
کیوں اتنا دور میرے خدا ہو گیا ہوں میں 

یاسر مرے وجود میں یوں بس گیا ہے وہ
لگتا ہے جیسے اُس کی صدا ہوگیا ہوں میں

غلام مجتبیٰ یاسر ہاشمی

*************


rakh k seenay pe tere hijr ka bhari pathar : poet shah dil


شاہ دل



رکھ کے سینے پہ ترے ہجر کا بھاری پتھر
چشمِ نم ہو گئی بے کیف ہماری پتھر

روزِ محشر جو کرم ہو اے مرے شافعِ حشر
دور بس دور رہیں ہم سے وہ "ناری" پتھر

پہنچ پاتا نہیں مری سوچ مری فکر کو جب
پھینکتا کیوں ہے مری راہ میں او مداری پتھر

کیا گواہی ہے رسالت پہ تری شاہ ِاممؐ
کلمہ پڑھتے ہیں یدِکفر میں "قاری" پتھر

چھایا اس طور سے ہے بیزاری کا عالم شاہ دل
"لگے ہے اب کے صبا اور بادِ بہاری "پتھر

*************

شاہ دل


baad mere wo gir para hoga : poet tamoor zulfiqar

تیمور ذوالفقار



بعد میرے وہ گر پڑا ہو گا
یا بہت کرب سے کھڑا ہو گا

چاہ میں وہ منائے جانے کی
مجھ سے دانستہ لڑ پڑا ہو گا

ہے گماں، اس کے دل میں یادوں کا
سلسلہ اب تو چل پڑا ہو گا

بند کر لوں جو میں ابھی آنکھیں
تو مرے سامنے کھڑا ہو گا

یہ جو قد ہے تری محبت کا
جھک کے رہنے سے ہی بڑا ہو گا

زندگی اب تو مجھ کو جانے دے
راستہ منتظر کھڑا ہو گا

تیمور ذوالفقار

*************


Sunday 17 January 2016

dhoop main saya banay tanha kharay hotay hain : poet azhar fragh

اظہر فراغ


دھوپ میں سایہ بنے تنہا کھڑے ہوتے ہیں
بڑے لوگوں کے خسارے بھی بڑے ہوتے ہیں

ایک ہی وقت میں پیاسے بھی ہیں سیراب بھی ہیں
ہم جو صحراؤں کی مٹی کے گھڑے ہوتے ہیں

یہ جو رہتے ہیں بہت موج میں شب بھر ہم لوگ
صبح ہوتے ہی کنارے پہ پڑے ہوتے ہیں

ہجر دیوار کا آزار تو ہے ہی لیکن
اس کے اوپر بھی کئی کانچ جڑے ہوتے ہیں

آنکھ کھلتے ہی جبیں چومنے آ جاتے ہیں
ہم اگر خواب میں بھی تم سے لڑے ہوتے ہیں

اظہر فراغ

*************



hum shajar ranj se shakhon ki taraf dekhtay hain : poet nadir areez

نادر عریض


ھم شجر رنج سے شاخوں کی طرف دیکھتے ھیں
جب جدا ھوتے پرندوں کی طرف دیکھتے ھیں

اتنا پیارا ھے وہ چہرہ کہ نظر پڑتے ھی
لوگ ھاتھوں کی لکیروں کی طرف دیکھتے ھیں

جسم کمرے میں دماغ اور کہیں ھوتا ھے
سو لگاتار دریچوں کی طرف دیکھتے ھیں

جن کو آسانی سے دیدار میسر ھے ترا
وہ کہاں باغ میں پھولوں کی طرف دیکھتے ھیں

شاید اس بھیڑ میں واقف نکل آئے کوئی
ھم کھڑے لوگوں کے چہروں کی طرف دیکھتے ھیں

پہلا موقع ھے محبت کی طرفداری کا
کبھی اسکو کبھی لوگوں کی طرف دیکھتے ھیں
  
نادر عریض

*************



tu karri dhoop ka sitara hai : poet zulqernain hassani

ذوالقرنین حسنی



تو کڑی دھوپ کا ستارہ ہے
تیرا ہونا مجھے گوارہ ہے

اک سمندر میں ڈوب جانے تک
یہ ہتھیلی بھی تو کنارہ ہے

پس دیوار جھانکتی خواہش
رائیگانی کا استعارہ ہے

ساتویں سمت اس کہانی میں
نئے کردار کا اشارہ ہے

اے خدائے سوال پیچیدہ
اب ترا وصل بھی خسارہ ہے

ذوالقرنین حسنی

*************

zindagi kiu na tujhay wajd main laon wapis : poet nazar hussain naaz

نذر حسین ناز


زندگی کیوں نہ تجھے وجد میں لاؤں واپس
چاک پر کوزہ رکھوں ، خاک بناؤں واپس

وقت کا ہاتھ پکڑنے کی شرارت کر کے
اپنے ماضی کی طرف بھاگتا جاؤں واپس

دیکھ میں گردشِ ایام اٹھا لایا ہوں
اب بتا کون سے لمحے کو بلاؤں واپس

یہ زمیں گھومتی رہتی ہے فقط ایک ہی سمت
تو جو کہہ دے تو اسے آج گھماؤں واپس

تھا ترا حکم سو جنت سے زمیں پر آیا
ہو چکا تیرا تماشا تو میں جاؤں واپس

نذر حسین ناز

*************

dil ki lagi ko aaj bujhanay nikal paray : malik habib

ملک حبیب


دِل کی لَگی کو آج بُجھانے نِکل پَڑے 
ہم خواب بیچنے کے بَہانے نِکل پَڑے

آنکھیں کِسی خیال کی دُنیا میں کھو گئیں
تب اشک اُن کو ہوش دِلانے نِکل پَڑے

جِن کے گھروں کو ہم نے بَچایا تھا آگ سے
وہ لوگ گَھر ہَمارا جلانے نِکل پَڑے

مُدت کے بعد شہر میں آیا ہے کچھ سکوں
تُم پھِر سے اس میں آگ لگانے نِکل پَڑے

وحدت کی بات سنتے ہی سب مُفتیانِ شہر
کافر سمجھ کے ہم کو جَلانے نِکل پَڑے

راتیں کَٹی تِھیں گِریہ و زاری میں جِس جَگہ
سُنتے ہیں اب وہاں سے خَزانے نِکل پَڑے

ہم سے ہی روشنی کو عَداوت رَہی حَبیب
ہم چل بَسے تو دِن بھی سُہانے نِکل پَڑے

*************

ملک حبیب

shaam ki zard udasi main bithaon tujh ko : poet mubashir saeed

مبشر سعید



شام کی  زرد اداسی میں بٹھا ؤں تجھ کو
زندگی ! آ کبھی سینے سے لگاؤں تجھ کو

عالم ہوش کو  مدہوش بنانے کے لیے
آیتِ حسن پڑھوں دیکھتا جاؤں تجھ کو

تو نہیں مانتا مٹی کا دھواں ہو جانا
تو ابھی رقص کروں ہو کے دکھاؤں تجھ کو

کر لیا ایک محبت پہ گزارا میں نے
چاہتا تھا کہ میں پورا بھی تو آؤں تجھ کو

شب آلام کو ضوریز بنانے کے لئے 
قصہ قیس پڑھوں ، پھونکتا جا ؤں تجھ کو

اس نے اک بار مجھے پیار سے پوچھا تھا سعید
کیا یہ ممکن ہے ، کہ میں یاد نہ آ ؤں تجھ کو

مبشر سعید

*************


main aisay morr per apni kahani chorr aya hon : poet nadeem bhabha

ندیم بھابھہ



میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں
کسی کی آنکھ میں پانی ہی پانی چھوڑ آیا ہوں

ابھی تو اُس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے
ابھی تو اُس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں

بس اِتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیاہوں

اسی خاطر مرے چاروں طرف پھیلا ہے سنّاٹا
کہیں میں اپنے لفظوں کے معانی چھوڑ آیا ہوں

میں ایسا بے نشاں ہوں اپنا ہونا بھی مٹا آیا
میں ایسا رائیگاں ہوں رائیگانی چھوڑ آیا ہوں

ندیم بھابھہ

*************

na hi rung de na nikhar de, muje maar de : poet ansar jazib

محمد انصر جاذب


نہ ہی رنگ دے نہ نکھار دے،مجھے مار دے 
ابھی چاک سے تو اتار دے، مجھے مار دے 

تری ذات تک کی رسائی تو ابھی دور ہے 
مجھے میری ذات پہ وار دے، مجھے مار دے 

میں ہوں چاہتا ترے نام سے رہیں نسبتیں 
نہ تو تخت دے مجھے دار دے ،مجھے مار دے 

ترے عشق کا یہ جو زہر ہے مرے چارہ گر 
مری سانس میں تو اتار دے ،مجھے مار دے 

نہیں جھیلنا ہے یہ ہجرتوں کا عذاب اب 
مجھے شاخ شاخ بہار دے ،مجھے مار دے 

وہی وحشتیں وہی دشت ہے میں  ہوں جاں بلب 
مری تشنگی مجھے مار دے، مجھے مار دے

محمد انصر جاذب

*************

har shakhs ko rudaad sunanay se raha main : poet marjan sarmast

مرجان سرمست



ہر شخص کو روداد سنانے سے رہا میں 
زندان کی توقیر بڑھانے سے رہا میں 

چہرے سے جسے درد پرکھنا ہے پرکھ لے 
پوشاک پہ تو زخم سجانے سے رہا میں 

لے آؤں گا میں کھینچ کہ اس دشت میں دریا 
دریا میں مگر دشت کو لانے سے رہا میں 

کہنے پہ تیرے آ تو گیا ہوں میں یہاں دل 
کہنے پہ تیرے لوٹ کے جانے سے رہا میں 

یہ مہر و محبت مجھے ورثے میں ملے ہیں
اجداد کی جاگیر لٹانے سے رہا میں 

صدیوں سے میرا ضبط کا عالم نہیں چھوٹا 
سو اشک ندامت کے بہانے سے رہا میں 

مرجان کسی اور مسافت پہ مجھے بھیج 
خوشبو کے تعاقب میں تو جانے سے رہا میں

مرجان سرمست

*************

main jab bacha tha to aksar khilonay toot jatay thay : poet malik muhammad asad( dil e muztar)

ملک محمد اسد



میں جب بچہ تھا 
تو اکثر 
کھلونے ٹوٹ جاتے تھے 
میرے رونے پہ
ماں آ کر کھلونے جوڑ دیتی تھی 
سنا ہے ماں سے بھی بڑھ کر 
تجھے الفت ہے بندوں سے
تَو 
آ کے جوڑ دے یا رب 
میں خود کو توڑ بیٹھا ہوں 

ملک محمد اسد

*************

fesla waqt ka taala nahi jata maye : poetess dilshad nasim

دلشاد نسیم


فیصلہ  وقت کا ٹالا نہیں جاتا مائے
مجھ سے اب خود کو سنبھالا نہیں جاتا مائے

 روز اشکوں سے میں دھو لیتی ہوں آنکھیں اپنی
پھر بھی آنکھوں سے یہ جالا نہیں جاتا مائے

تُو مرے پاس نہیں کس کو سناؤں دکھڑا
دل سےکانٹا یہ نکالا نہیں جاتا مائے

اب کوئی نازنہیں میرا اٹھانے والا
اب کوئی خواب اچھالا نہیں جاتا مائے

تری دلشاد کو لے ڈوبے گا اک روز یہ دل
بن تیرے  دکھ کوئی پالا نہیں جاتا مائے

دلشاد نسیم

*************