شہبازیادش
جان اک میری جان میں روئی
شش جہت سی دھیان میں روئی
ہائے وہ ایک بھی نہیں سمجھا
آنکھ کس کس زبان میں روئی
جی یہ اپنا ہی بھر نہ آوے کیوں
آ کے تنہائی کان میں روئی
وے قسم ہے کہ ڈھے گیا سنیو
داستاں جس مکان میں روئی
ہم نے دانستہ گھر ڈبویا ہے
یعنی پستی ڈھلان میں روئی
تیر ہنستا ہے دیکھ کر مجھ کو
میری چھاتی کمان میں روئی
پہلے مجنوں کو روتے دیکھوں تھا
آج لیلٰی گمان میں روئی
سنگ فرہاد پر ہیں خندہ گل
کوئی شیریں چٹان میں روئی
تاکِ یادش میں اک تھکی ہاری
حور باب الریان میں روئی
شہبازیادش
No comments:
Post a Comment