فہمیدہ کوثر فہمی
ہاتھ تھامے چراغِ تنہائی
مجھ سے ملنے حیات میں آئی
بیتے لمحوں کو ڈھونڈتا ہے دل
دور بجنے لگی ہے شہنائی
اپنے انجام سے تو واقت تھا
جس نے ٹھوکر بھی جا بجا کھائی
جس پہ بیتی وہ جانتا ہے اسے
جس نے یادوں کی زُلف لہرائی
پھر اُداسی کا آ گیا موسم
فہمی بھولی سی بات یاد آئی
فہمیدہ کوثر فہمی
*************
No comments:
Post a Comment