ندیم بھابھہ
میں ایسے موڑ پر اپنی کہانی چھوڑ آیا ہوں
کسی کی آنکھ میں پانی ہی پانی چھوڑ آیا ہوں
ابھی تو اُس سے ملنے کا بہانہ اور کرنا ہے
ابھی تو اُس کے کمرے میں نشانی چھوڑ آیا ہوں
بس اِتنا سوچ کر ہی مجھ کو اپنے پاس تم رکھ لو
تمہارے واسطے میں حکمرانی چھوڑ آیاہوں
اسی خاطر مرے چاروں طرف پھیلا ہے سنّاٹا
کہیں میں اپنے لفظوں کے معانی چھوڑ آیا ہوں
میں ایسا بے نشاں ہوں اپنا ہونا بھی مٹا آیا
میں ایسا رائیگاں ہوں رائیگانی چھوڑ آیا ہوں
ندیم بھابھہ
*************
No comments:
Post a Comment