عاصم حجازی
کیا کہوں جو ہے مرے دل میں اترنے والا
بال و پر بھی ہے وہی میرے کترنے والا
اپنی برباد اُمیدوں کا کوئی رنج نہیں
دل کا دامن ہی نہیں خوشیوں سے بھرنے والا
مُشت بھر خاک ہو خود پر نہ کبھی ناز کرو
چار دن پھول بھی کھلتا ہے بکھرنے والا
وقتِ رُخصت یوں تجھے دل نے تڑپ کر دیکھا
جیسے حسرت سے تکے جاں سے گزرنے والا
کیا اُے پاسِ وفا یاد دلاؤں عاصم
وہ جو ہر بات سے اپنی ہے مکرنے والا
عاصم حجازی
*************
No comments:
Post a Comment