محمد انصر جاذب
نہ ہی رنگ دے نہ نکھار دے،مجھے مار دے
ابھی چاک سے تو اتار دے، مجھے مار دے
تری ذات تک کی رسائی تو ابھی دور ہے
مجھے میری ذات پہ وار دے، مجھے مار دے
میں ہوں چاہتا ترے نام سے رہیں نسبتیں
نہ تو تخت دے مجھے دار دے ،مجھے مار دے
ترے عشق کا یہ جو زہر ہے مرے چارہ گر
مری سانس میں تو اتار دے ،مجھے مار دے
نہیں جھیلنا ہے یہ ہجرتوں کا عذاب اب
مجھے شاخ شاخ بہار دے ،مجھے مار دے
وہی وحشتیں وہی دشت ہے میں ہوں جاں بلب
مری تشنگی مجھے مار دے، مجھے مار دے
محمد انصر جاذب
*************
No comments:
Post a Comment