مرجان سرمست
ہر شخص کو روداد سنانے سے رہا میں
زندان کی توقیر بڑھانے سے رہا میں
چہرے سے جسے درد پرکھنا ہے پرکھ لے
پوشاک پہ تو زخم سجانے سے رہا میں
لے آؤں گا میں کھینچ کہ اس دشت میں دریا
دریا میں مگر دشت کو لانے سے رہا میں
کہنے پہ تیرے آ تو گیا ہوں میں یہاں دل
کہنے پہ تیرے لوٹ کے جانے سے رہا میں
یہ مہر و محبت مجھے ورثے میں ملے ہیں
اجداد کی جاگیر لٹانے سے رہا میں
صدیوں سے میرا ضبط کا عالم نہیں چھوٹا
سو اشک ندامت کے بہانے سے رہا میں
مرجان کسی اور مسافت پہ مجھے بھیج
خوشبو کے تعاقب میں تو جانے سے رہا میں
مرجان سرمست
*************
No comments:
Post a Comment